آپ کا سلاماردو غزلیاتشاہد عباس ملکشعر و شاعری

ہم تو قائل ہی نہ تھے

شاہد عباس ملک کی ایک اردو غزل

ہم تو قائل ہی نہ تھے دشت کے ، ویرانوں کے
راستے تم نے دکھائے ہیں بیابانوں کے

تیرے چہرے سے نظر ہٹ نہیں سکتی ورنہ
مشغلے اور بھی ہو سکتے تھے دیوانوں کے

آنکھ مجھ سے نہ ملاتے کبھی مجرم میرے
در کھلے چھوڑ نہ دیتا جو تو زندانوں کے

روز آنکھوں میں نئے خواب پرو لیتا ہوں
سلسلے ختم ہی کب ہوتے ہیں ارمانوں کے

کچھ نظر آتا نہیں جن کو سوائے اپنے
یہ وہی لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے

آج سلطان تو کل کاسہ لیے پھرتے ہیں
وقت دیکھے ہیں بدلتے کئی انسانوں کے

رند اٹھتے ہی نہ تھے روز تری محفل سے
صبح تک دور چلا کرتے تھے پیمانوں کے

گھر بنانے کا کبھی سوچ نہ پایا شاہد
رخ بدلنے ہی نہ آئے کبھی طوفانوں کے

شاہد عباس ملک

شاہد عباس ملک

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر خوشاب کے گاوں پدھراڑ سے تعلق ہے اور پیشہ کے اعتبار سے انجینئر ہیں شاعری کا شوق سکول کے دور سے ہی ہے اور سکول دور سے ہی شاعری کر رہے ہیں نعتیہ کلام لکھتے بھی ہین اور نعت پڑھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں اردو ادب سے لگاو بچپن سے ہے ۔ شاعروں میں علامہ اقبال، ناصر کاظمی داغ دہلوی اور غالب بہت پسند ہیں ۔ ایک معروف ادبی تنظیم "عالمی ادب اکادمی " سے وابستہ ہیں اور تحصیل کوآرڈینیٹر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور ادب کی خدمت میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں دو کتب اشاعت کے مراحل میں ہیں ایک نعتیہ کلام پر مبنی جو ربیع الاول میں آئے گی اور ایک عزلیات پر مشتمل ہے جو اسی سال دسمبر میں شائع ہوگی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button