ہم تو قائل ہی نہ تھے دشت کے ، ویرانوں کے
راستے تم نے دکھائے ہیں بیابانوں کے
تیرے چہرے سے نظر ہٹ نہیں سکتی ورنہ
مشغلے اور بھی ہو سکتے تھے دیوانوں کے
آنکھ مجھ سے نہ ملاتے کبھی مجرم میرے
در کھلے چھوڑ نہ دیتا جو تو زندانوں کے
روز آنکھوں میں نئے خواب پرو لیتا ہوں
سلسلے ختم ہی کب ہوتے ہیں ارمانوں کے
کچھ نظر آتا نہیں جن کو سوائے اپنے
یہ وہی لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے
آج سلطان تو کل کاسہ لیے پھرتے ہیں
وقت دیکھے ہیں بدلتے کئی انسانوں کے
رند اٹھتے ہی نہ تھے روز تری محفل سے
صبح تک دور چلا کرتے تھے پیمانوں کے
گھر بنانے کا کبھی سوچ نہ پایا شاہد
رخ بدلنے ہی نہ آئے کبھی طوفانوں کے
شاہد عباس ملک