کہاں سے چلے تھے کہاں آ گئے ہیں
یہ وحشت کے رستے ہمیں بھا گئے ہیں
ہمیں زندگی سے نہیں خوف کوئی
ہمیں زیست کے حوصلے آ گئے ہیں
روانہ ہوئے کشتیوں میں مسافر
ہمیں اِک جزیرے میں بھٹکا گئے ہیں
یہ تقصیرِ آدم نہیں اور کیا ہے
کہ جنت سے اُٹھ کر یہاں آ گئے ہیں
ہر اِک اپنا اپنا صنم پوجتا ہے
خدائی میں کتنے خدا آ گئے ہیں
محبت ہو حاصل تو لگتا ہے ایسا
کہ مٹھی میں دونوں جہاں آ گئے ہیں
شازیہ اکبر