دیکھ کر بے ساختہ ہنستے ہوئے
لوگ خوش قسمت مجھے کہنے لگے
صرف میرے پاؤں میں زنجیر تھی
قافلے والے مگر چلتے رہے
چھوڑ کر پردیسیوں کو غم زدہ
لوگ اپنے اپنے گھر کو چل دیے
بھول بھی جاتا ہے منزل کا نشاں
پاؤں سے لپٹے رہیں جب راستے
شہر میں شب بھر چراغاں سا رہا
گاؤں والے اک دیے کے ہو گئے
بات بھی کرنی گراں لگنے لگی
درمیاں جب فاصلے بڑھنے لگے
جب بھی تنہائی نے ہم سے بات کی
داستانِ غم سنا کر رو دیے
اجنبی بن کر ابھی خاموش ہے
ھائے کیا ہوتا ہے آگے دیکھئیے
منزّہ سیّد