تیری نگاہ لطف بھی ناکام ہی نہ ہو
دل تو وہ زخم ہے جسے آرام ہی نہ ہو
چونکا ہوں نیم شب بھی یہی سوچ سوچ کر
وہ آفتاب اب بھی لب بام ہی نہ ہو
تم جس کو جانتے ہو فقط اپنی طبع خاص
وہ رنج وہ فسردہ دلی عام ہی نہ ہو
آہستہ اس لرزتے ہوئے پل پہ رکھ قدم
صدیوں کا انہدام ترے نام ہی نہ ہو
اے دل مفر تو کار جہاں سے نہیں مگر
اتنا تو کر کہ اس میں سبک گام ہی نہ ہو
دستک سی دے رہی ہے دریچے پہ باد صبح
اے محو خواب سن کوئی پیغام ہی نہ ہو
خورشیدؔ تو نے کیسے نبھائیں یہ عزلتیں
جیسے تجھے کسی سے کوئی کام ہی نہ ہو
خورشید رضوی