- Advertisement -

راز داں

حمید قیصر کا ایک افسانہ

راز داں

میں موچی کے تھڑے پر پہنچا تو وہ اکیلا کسی جوتے پر جھکا اپنے کام میں مگن تھا۔ ابھی میں بیٹھا ہی تھا کہ مجھے بھن بھن کا نامانوس ساشور سنائی دیا، میں نے معنی خیز نگاہوں سے موچی کی طرف دیکھا تو وہ بدستور اپنے کام میں مصروف رہا۔ میں نے ذرا غور سے سنا تو مجھے محسوس ہوا جیسے موچی کے ارد گرد بکھرے خستہ حال جوتے آپس میں سرگوشیا ں کررہے ہیں۔ مجھے ایک لمحے کے لئے یوں لگا جیسے موچی کا تھڑا گاؤں کی ایک وسیع چوپال ہے جو گاؤں کے کسانوں، بوڑھوں ، بچوں اور نوجوانوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ گاؤں کی چوپال میں داستان گو صرف ایک اور باقی سب سامعین ہوتے ہیں جب کہ وہاں صرف میں اور موچی سامع اور تمام جوتے داستاں گو تھے۔ میں نے دیکھا کہ ان کے سفر کی اپنی اپنی داستانیں کیچڑ اور گرد کی سیاہی سے ان کے ماتھے پر لکھی ہوئی تھیں۔
تمام جوتے بیک وقت بول رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنا حال دل سنانے کیلئے بہت بے چین ہیں۔ کسی کی آواز تیز اور کسی کی بہت مدہم تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے سب اپنے مالکوں سے سخت ناراض ہیں۔ دفعتاًربڑکے ایک برساتی بوٹ کی آواز بلند ہوئی۔
’’ میں یہاں پردیسی ہوں، میرے اصل مالک نے مجھے امریکہ کی ایک شاندار دکان سے مہنگے داموں خریدا تھا۔ میرا مالک نہایت وضع دار شخص تھا۔ اس کا گھر اس کا شہر اور بازار سب صاف ستھرے تھے، وہ مجھے صرف بارش کے دن استعمال کرتا تھا۔ پھر مجھے احتیاط سے خشک کر کے الماری میں رکھ دیتا ۔ اس کے لباس سے اٹھتی مسحور کن پرفیوم کی خوشبو میں اب تک محسوس کرتا ہوں۔پھرکچھ ایسا انقلاب آیا کہ کچھ پتہ نہ چلا ۔ مجھے کوئی امریکہ سے اٹھا کے یہاں لے آیا اور میں پردیسی ہوگیا۔ یہاں کے گندے شہر، ناہموار ادھڑی ہوئی سڑکیں متعفن گلیاں مجھے بالکل پسند نہیں آئیں۔ یہاں کا موسم بھی میری صحت کے لئے ناساز گار ہے۔ میرا یہ مالک نہایت کنجوس اور لاپرواہ ہے……….اس لیے میرا منہ پھٹ گیا اور سیمنٹ گارا مالک کے پاؤں گندے کرنے لگا۔ تب وہ مجھے دو دن پہلے یہاں چھوڑ گیا۔ یہاں میں دو دن سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت آرام اور سکون میں ہوں……….
برساتی بوٹ چپ ہوا ہی تھا کہ ایک خوش نما اور نئے بوٹ نے کہنا شروع کیا ’’ میں بڑا خوش نصیب ہوں، میری جوانی کے ابتدائی ایام ایک بہت خوبصورت اور سجی سجائی دکان میں گزرے جہاں چاروں طرف شیشے کے صاف ستھرے شوکیسوں میں میرے خاندان کے دوسرے افراد ہر وقت آمنے سامنے بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکراتے رہتے تھے، دکان کا مالک صبح سویرے ہماری جھاڑ پونچھ کرواتا اور ہمارا ہر طرح سے خیال رکھتا ……….پھر ایک دن ایک نفیس اور خوش لباس نوجوان گاڑی میں اپنی بیوی کے ساتھ دکان میں جوتے خریدنے آیا تو میں اسے پسند آگیا۔ دکان کے مالک نے منہ مانگی قیمت وصول کی او ر خوشی خوشی مجھے نئے مالک کے حوالے کردیا، جس نے میرا بڑا خیال رکھا۔ مجھے ننگے فرش پر ذرا بھی استعمال نہیں کیا بلکہ گھر دفتر اور باہر مجھے پہن کر جہاں بھی گیا ہر طرف خوش نما قالین بچھے ہوئے ملے۔ اب یہی دیکھ لیجئیے آج صبح گاڑی کے دروازے سے رگڑ کھا کر ذرا سا میرا ایک ٹانکا نکل گیا اور وہ مجھے یہاں مرمت کیلئے چھوڑ گیا ہے ………. تب سے میں یہاں بڑی تکلیف میں ہوں۔‘‘
’’ ہائے ہائے………. میری تو پیدا ہوتے ہی قسمت سڑگئی تھی ۔ ایک نہایت ہی بھدی اور گھسی پٹی جوتی چلانے لگی ‘‘ ابھی میں گودام ہی میں تھی کہ نجانے کیسے گودام کو آگ لگ گئی، میرے خاندان کے بہت سے افراد جل کر چر مر ہوگئے ۔ نصف سے زائد زخمی ہوگئے، میرا خوبصورت پلاسٹک اور سنہرا رنگ جل کر کالا ہوگیا۔ ہمیں وہاں سے اٹھا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا، جہاں ابھی مجھے دھوپ میں پڑے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ہڈیاں چننے والی ایک کال کلوٹی نے اٹھا کر پہن لیا، میرا رنگ اس کے پاؤں کے رنگ سے زیادہ میل کھاتا تھا، جبھی تو میں نے اس کے چہرے پر قوس و قزح کے رنگ آتے جاتے دیکھے تھے۔وہ بہت خوش نظر آتی تھی لیکن اس نے اور اس کے خاندان نے مجھ پر بہت ظلم ڈھائے………. ان کے خاندان میں جب بھی کوئی شادی ہوتی اس کی بیٹی مجھے پہن جاتی، وہ کلموی ڈھولک کی پر جوش تال پراتنا ناچتی اتنا ناچتی کہ میری ہڈیاں چٹخ جاتیں………. اس کی ماں مجھے پہنے ہوئے گندے ڈھیروں پر سارا دن ماری ماری پھرتی ہے ، گھر آکر اسی طرح اتار کر پھینک دیتی ہے ۔میں نے اسے کیل چبھونے شروع کردیئے ہیں۔ اب وہ مجھے روزانہ موچی کے پاس پھینک جاتی ہے………. اس لئے کچھ دن سکون سے ہوں۔‘‘
’’ مجھے بھی اپنے مالک سے سخت چڑ ہے………. ‘‘ موچی کے دونوں پیروں میں دبکی ہوئی ایک گہرے براؤن رنگ کی بھدی سی چپل نے کہنا شروع کیا ۔ وہ حجام کے سامنے بیٹھے شیو کراتے ہوئے اس آدمی کی طرح بول رہی تھی جو کرسی کی پشت کی طرف بیٹھے شیو کراتے ہوئے کسی دوست سے محو کلام ہو ۔’’ میرا مالک بھی بہت گندا ہے اس کے پاؤں سے ہر وقت کالے صابن کی بو آتی رہتی ہے۔ شاید وہ صابن ہی کی فیکٹری میں پیٹیاں ڈھوتا ہے۔ اس کے ساتھ سارا دن مجھے بھی مزدوری کرنی پڑتی ہے اور دو گنا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ شاید میری زندگی اپنے مالک اور صابن کی پیٹیوں کا وزن اٹھاتے اٹھاتے بیت جائے گی۔ موچی نے جب چپل کی مرمت مکمل کرلی تو یہ سوچ کر کہ اس کا طویل اور کٹھن سفر دوبارہ شروع ہونے والا ہے چپل بہت اداس ہوگئی اس کی اداسی بجا نکلی ، ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک خستہ حال مزدور کندھے پر خالی بوری رکھے، موچی کے پاس آیا، ایک اٹھنی اس کی طرف اچھالی اور چپل لے کر چلتا بنا۔ اس کے کھر در ے ہاتھوں میں دبکی ہوئی چپل دوسرے جوتوں کو یوں دیکھے جارہی تھی جیسے کوئی دریا میں بہتا ہوا کنارے والوں کو حسرت و یاس سے دیکھتا ہے……….‘‘
’’ ہاہا ہا ہا ………. ‘‘ ایک لال رنگ کی خوبصورت سینڈل موچی کے عین پیچھے سے جھانک کر ہنسنے لگی ۔ مجھ سے زیادہ خوش نصیب بھلا اور کون ہوگا؟ میری مالکن کی نئی نئی شادی ہوئی ہے میں اور میری مختلف رنگوں کی انیس بہنیں مالکن کے ساتھ ہی جہیز میں آئی ہیں۔ ہماری مالکن کے پاؤں کے رنگلی مہندنی ابھی تک تازہ ہے ………. مہندی کی خوشبو سے میں پہلی بار اس وقت آشنا ہوئی جب مالکن نے مجھے پہلی بار سرخ جوڑے کے ساتھ پہناتب سے مجھے مہندی کی خوشبو بھاگئی ہے اور میں بڑی شدت سے اپنی باری کا انتظار کرتی ہوں……….‘‘
کچھ دیر بعد موچی جوتوں کے ڈھیر میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ شاید وہ کسی جوتے کی پیوند کاری کے لئے مناسب رنگ کا چمڑا تلاش کررہا تھا کہ پرانے جوتوں کے ڈھیر میں سے ایک اچانک دودھ کی خوشبو آنے لگی۔ پیلے رنگ کے پلاسٹک اور کپڑے کی ایک خوبصورت بچگانہ سینڈل اچانک نکل کر سامنے آگئی………. وہ خاصی اداس اور خاموش تھی۔ بالکل اس بچے کی طرح جس سے کسی نے اس کے دودھ کی بوتل چھین لی ہو۔
موچی کے ادھر ادھر ہاتھ چلانے سے جوتوں کی بھن بھن مدھم ہوگئی تو بچگانہ سینڈل نے کہنا شروع کیا………. ‘‘ میرا مالک ایک سال کا بچہ ہے جو بوتل سے دودھ پیتا ہے ، جب وہ کھڑا ہو کر پاؤں پاؤں چلتا ہے اور گر پڑتا ہے تو میں اسے سیٹیاں بجا بجاکر دوبارہ چلنے کی ترغیب دیتی ہوں۔ مجھے بچے اور اس کے دودھ کی خوشبو بہت اچھی لگتی ہے اور جب اس کی ماں بچے کو جھولے میں ڈال کر لوری دیتی ہے تو بچے کے ساتھ مجھے بھی نیند آنے لگتی ہے روزانہ دودھ کی بوتل ، بچہ اور میں ، تینوں اکٹھے ہی سوتے ہیں………. اس دوران میں نے پہلی بار موچی کو بچگانہ سینڈل کی باتیں سن کر مسکراتے ہوئے دیکھا ………. میں بھی مسکرانے لگا۔
کچھ دیر بعد جوتوں کی بھن بھن کا شور پھر بڑھنے لگا۔ کھٹ کھٹ کھٹ موچی ایک میلے رنگ کے پھولے ہوئے بوٹ میں کیل ٹھونک رہا تھا۔ ہتھوڑی کی کھٹ کھٹ سے کچھ خاموشی ہوئی تو ایک سفید رنگ کی ہوائی چپل تقریباً روتے ہوئے کہنے لگی۔
’’ میں نے اپنے مالک سے دھوکا کیا ہے ۔میں اس کے پاؤں کی حفاظت نہ کر سکی، کل شام کو جب وہ سیر کے لئے نکلا تو ایک کیل میرا پیٹ چیرتی ہوئی مالک کا پاؤں زخمی کر گئی اور میرا مالک شام کی سیر کے لطف سے محروم ہوگیا……….‘‘ میں نے غور سے دیکھا تو واقعی چپل کے درمیان میں خون کا دھبہ ابھی تک دکھائی دے رہا تھا۔
اچانک میری نظر موچی کے جوتوں پر پڑی جو ایک طرف پڑے بالکل خاموشی سے یوں باتیں سن رہے تھے جیسے اپنے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ میں نے دیکھا کہ موچی کی ہفت رنگ ہوائی چپلیں بھی خاموشی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی تھیں، جنہیں اپنی کہانی تک بھول گئی تھی اور جوہر گاہک کے پاؤں میں فٹ آجاتی تھیں۔ ان کے اصل مگر خستہ حال جسمانی حصے تبدیل کردئیے گئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے حالات کی ستم ظریفی سے خوف کھا کر ایک دوسرے میں چھپ کر پناہ ڈھونڈ رہی ہوں۔ مجھے تو ہوائی چپلوں کے خلاف یہ موچی کی سازش لگتی تھی تاکہ یہ اپنی پوری کہانی کسی کو نہ سنا سکیں……….
جوتوں کی سر گوشیوں پر اچانک پی ٹی شوز کی آواز غالب آگئی ’’ میں چھٹی جماعت میں کامیابی پر ایک بچے کے حصے میں تحفتاً آیا تھا………. میرا مالک بچہ بہت معصوم ہے۔ اسکا معمول اسکول سے گھر ، گھر سے کھیل کا میدان اور پھر گھر تک محدود ہے۔ میرے ملنے کی خوشی میں اس نے اپنے پرانے جوتے مکان کے چھحبے پر پھینک دیئے تھے۔ وہ ہر وقت ہر جگہ مجھے پہنے رکھتا تھا۔ اسی طرح اس نے دو سال بتا دئیے اس کے ماں باپ غریب تو نہیں ہیں لیکن وہ بچہ بہت ہی غریب ہے جس کی زندگی میں جیب خرچ نام کی کسی چیز کا کوئی دخل نہیں………کئی دفعہ میرا کینوس تلووں سے علیحدہ ہوگیا تو اس نے سوئی دھاگہ لے کر اپنے ہاتھوں سے میرے ٹانکے لگائے ۔ وہ فٹ بال کا ہر میچ کھیلنے سے پہلے بڑے بھائی کی سفید پالش چرا کر میرا میک اپ کرتا ہے۔ اس کی ماں نہیں ہے۔ اس بات کا علم مجھے اس وقت ہوا جب وہ اپنے ایک ننھے دوست سے ملنے اس کے گھر گیا تو اس کا دوست اپنی ماں سے لڑ جھگڑ کر نئے پی ٹی شوز کی فرمائش کررہا تھا اور اس کی ماں اس کا منہ چومتے ہوئے اسکی فرمائش پوری ہونے کی یقین دہانی کرارہی تھیں۔ یہ سب دیکھ کر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ پھر اس دن سے لے کر آج تک میں نے اسے کسی دوست کے گھر نہیں جانے دیا۔ اگر وہ کسی دوست کے گھر کی طرف قدم اٹھاتا بھی ہے تو………میرے ٹانکے کھل جاتے ہیں اور وہ واپس اپنے گھر آجاتا ہے ۔ وہ بہت وفادار ہے اسے میرا ذرابھر ساتھ چھوڑنا گوارا نہیں ، میں اس کی پھٹی ہوئی جرابوں کا بھی راز داں ہوں۔ وہ بھی میرا بہت خیال رکھتا ہے۔ بلکہ اب تو میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ وہ میرے ٹانکے ٹوٹنے کے خوف سے بہت آہستہ آہستہ چلنے لگا ہے ……… کھیل کے میدان میں اگر فٹ بال اسکی طرف آتا ہے تو وہ اسے ہٹ لگانے سے بھی گریز کرنے لگا ہے ……… مجھے خطرہ ہے کہیں وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے ۔ کل میری دعا قبول ہوگئی اسے راہ چلتے ہوئے پانچ کا نوٹ ملا ہے اور اب وہ اس قابل ہوگیا ہے کہ موچی سے میری مرمت کراسکے۔ مجھے فخر ہے کہ مرمت کے بعد میں بھی اس قابل ہوجاؤں گا کہ مزید ایک سال کے لئے اس کی پھٹی ہوئی جرابوں کو چھپائے رکھوں………‘‘
’’ ارے ہم تو انسانوں کے ہر اچھے برے کے راز داں ہیں۔ ہم تو ان کی زندگی کے کٹھن سفر کے ساتھی ہیں……… ہم وہاں بھی انسانوں کی ساتھ رہتے یں، جہاں انسان کا اپنا سایہ بھی اسکا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
موچی کے جوتوں کی پرانی پیٹی سے سر نکال کر ایک بوڑ ھا بوٹ کہہ رہا تھا۔ وہ اتنا گھس چکا تھا کہ اس کے اصل رنگ کی پہچان مشکل ہوگئی تھی۔ ’’ میں جوانی میں بے حد حسین اور دلکش تھا، میری چمک کو زندگی کے تجربات نے چاٹ لیا ہے۔ اب میں ایک کتاب کی مانند ہوں، میرا پہلا مالک
ٹیکسی ڈرائیور تھا جس نے مجھے عید پر خریدا تھا۔ دوسرے ہی دن اسے کچھ غنڈوں نے ایک سنسان راہ گزر پر گولی ماردی ، سب کچھ لوٹ کر اس کی لاش جنگل میں پھینک کر چلے گئے۔ لوٹی جانے والی چیزوں میں مَیں بھی شامل تھا۔ میں اپنے مالک کے خون کا واحد گواہ ہوں……… پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ لٹیرے لوٹی ہوئی چیزوں کی تقسیم پر کیسے جھگڑے اور انہوں نے کیسے ایک دوسرے کا خون بہایا۔ بعد میں، میں ایک لٹیرے کے حصے میں آیا۔ میں نے اسے کبھی چین سے نہ دیکھا مجھے دیکھ کر اُسے میرے مالک کا خون یا دآجاتا ہے اور اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے آخر ایک دن اس نے تنگ آکر مجھے ایک دوست کے ہاتھوں بیچ دیا۔ یہاں سے میری ایک اور داستان شروع ہوتی ہے۔ میں تقریباً بیس مرتبہ مسجدوں اور مختلف جگہوں سے چوری ہوا۔ اس طرح میں شہر شہر گھوما، مختلف لوگوں کی صحبت میں رہا۔ میری ساری زندگی مختلف انسانوں کے ساتھ گزری جس کا ایک ایک لمحہ میرے جسم پر رقم ہے………‘‘ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ انسان ، انسان کا دشمن ہے ، انسان ناشکرا بے وفا، جھوٹا ، دغا باز ، چور، مکار اور ظالم ہے۔ میں نے اچھے لوگ بہت کم دیکھے ہیں ہاں میرا پہلا مالک ٹیکسی ڈرائیور بے حد اچھا تھا۔ محنت کی کمائی سے مجھے خریدا تھا ، مگر بے چارے کو کسی کی نظر لگ گئی عید کے دوسرے ہی دن قتل کردیا گیا۔
ابھی اس بوڑھے جوتے کی بات جاری تھی کہ میرے توجہ ایک بھاری بھر کم فوجی بوٹ نے اپنی طرف کھینچ لی۔ جس کی روشن پیشانی اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ اس نے کسی لخت جگر کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھا ہے……… تو پوں کی آواز اور گولہ بارود کا دھواں سالہا سال سے اس کے بڑے بڑے مضبوط ٹانکوں میں چھپا خاموش نگاہوں سے اپنی سرگزشت سنانے کو بے قرار بیٹھا تھا لیکن اس بوٹ پر فوجی ڈسپلن کا بہت گہرا اثر تھا، اسی لئے اب تک خاموش تھا……… مگر کم گو لوگوں کی طرح اس کی کہانی الفاظ کی محتاج نہ تھی بلکہ خود بخود سمجھ آرہی تھی۔
پھر میں نے دیکھا ایک بدوضع جو تا اپنے ساتھیوں کی باتیں سنتے ہوئے برابر ہنس رہا تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس نے ہزاروں میل کا طویل اور صبر آزما سفر بھاگ کر طے کیاہے ۔ وہ خود پر جبر کر کے بولنے کی بہت کوشش کرتا ہے مگر الفاظ ٹوٹ پھوٹ کر اس کی رال کے ساتھ ٹپکنے لگے……… ایسے میں ہر طرف نئے پرانے خطوط کی بوباس پھیل گئی ۔ جس میں لکھنے والوں کے جذبات و احساسات کی خوشبو کے ساتھ ساتھ ڈاکیے کے پسینے کی بو اور سفر کی تھکن بھی نمایاں ہے۔
اچانک موچی کسی ضرورت کے پیش نظر اٹھ کر مارکیٹ کی طرف چلاگیا……… موچی کا جوتا گلا پھاڑ کر کہنے لگا’’ میں اس شخص سے بہت عاجز ہوں، جوتوں کو پاؤں میں پہن کر جتنا بھی کیوں نہ گھسیٹا جائے وہ چلتے رہتے ہیں کیونکہ ازل سے چلتے رہنا ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا……… لیکن وہ یہ ظلم کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ لوگ ان سے روزانہ اپنی بیوی کو ماریں پیٹیں اور……… ابھی موچی کے جوتوں کا بیان جاری تھا کہ اچانک مجھے اپنے جوتوں کا خیال آیا جو ابھی تک خاموشی سے سب کچھ سن رہے تھے……… ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک کا میرا پنا کردار کسی فلم کی مانند میرے ذہن کی سکرین پر گھوم گیا……… اس سے پہلے کہ میرے جوتوں کی زبان کھلتی ……… میں نے وہاں سے کھسک جانے میں ہی عافیت جانی۔

حمید قیصر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
حمید قیصر کا ایک افسانہ