- Advertisement -

موت، مشرف اور انصاف

ایک اردو کالم از علی عبد اللہ

موت، مشرف اور انصاف

بعد از مرگ پھانسی یا کوئی بھی سزا اس اصول کے تحت دی جاتی ہے کہ

‘مجرم کی موت بھی اسے انصاف سے نہیں بچا سکتی۔’

ایسے مجرم جو اپنے جرائم کی سزا پائے بغیر مر جائیں انہیں قبر سے نکال کر سزائیں نا صرف قدیم زمانوں میں دی جاتی رہیں بلکہ جدید زمانہ عیسوی اور یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی تک جدید دنیا میں اسکے شواہد ملتے ہیں۔ عیسائیوں کا خیال تھا کہ قیامت کے دن مردوں کے جی اٹھنے کا تقاضا ہے کہ مکمل جسم کو مشرق کی جانب منہ کر کے دفن کیا جائے تاکہ جسم خدا کی طرف اٹھ سکے اور تقسیم کر کے کسی بھی جسم کے دوبارہ زندہ ہونے کے امکان کو روکنے کیلئے کیا جاتا تھا۔

عیسوی سن 897 میں پوپ اسٹیفن ششم نے کڈور Synod کے دوران پوپ فارموسس کی لاش کو قبر سے نکلوایا اور اس پر نہ صرف مقدمہ چلایا بلکہ گلٹی قرار دیکر اس سے قصاس لیا اور بعد میں اسے ٹائبر دریا میں پھینک دیا گیا۔ فارموس پر الزام یہ تھا کہ اسنے اسٹیفن
ششم کی تین انگلیاں ناحق کاٹی تھیں۔

برطانیہ میں بغیر سزا مر چکے مجرموں کی لاشیں نکال کر انکے اعضاء کاٹنا ایک باقاعدہ سزا مانی جاتی تھی جو پھانسی سے بھی اوپر تھی اور عوامی اجتماعات میں پھانسی لگا کر انکے اعضاء کاٹے جاتے تھے۔ سزا کا ایک باقاعدہ حصہ یہ تھا کہ لاش کو سرجن کے پاس لیجایا جائے جسکے بعد اسکے اعضاء کی عوامی نمائش کی جاتی۔ سن 1752 میں باقاعدہ ایک پارلیمانی ایکٹ جاری کیا گیا جسکی رُو سے انقطاعِ عُضو کو پھانسی کا نعم البدل قرار دیا گیا۔ انقطاع کا اصل مقصد قبر سے محروم رکھنا تھا تا کہ ایسے مجرم کو بعد از مرگ دوبارہ اٹھائے جانے سے روکا جا سکے۔ ایکٹ کیمطابق انقطاع میں رکاوٹ پیدا کرنے یا اعضاء کو لیجانے کی کوشش کی سزا 7 برس رکھی گئی۔

تقریباً 100 برس قبل 1649 میں کرنل آلیور کرامویل نے بدعنوانی اور بے حیائی کی روک تھام کے نام پر سول وار کے بعد چارلس اول کا تختہ الٹا اور ٹرائل کر کے اسے موت دیدی۔ کرامویل نے کرسچن مذھب میں بدعات کے خلاف جدوجہد کی اور اسے پروٹیسٹنٹ فرقے کا بانی بھی مانا جاتا ہے۔ وہ 3 ستمبر 1658 کو مرا اور مکمل شاھی اعزاز کیساتھ ویسٹ منسٹر قبرستان میں دفن ہوا۔ اسکے بعد اسکا بیٹا رچرڈ تخت افروز ہوا جو فوج نے اسکا تختہ الٹ کر چارلس دوم جو اس وقت جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا کو لندن لا کر تخت پر بٹھا دیا۔ چارلس دوم کی پارلیمنٹ کے حکم پر آلیور کرامویل اور اسکے تین بڑے سہولتکاروں کو تختہ الٹنے اور مارشل لاء لگانے کے جرم میں انکی قبریں شق کر کے باھر نکالا گیا اور الصبح سے شام چار بجے تک علامتی پھانسی دی گئی۔ حکم کے مطابق انکے ڈھانچوں سے کھوپڑیاں الگ کی گئیں اور کرامویل کی کھوپڑی کو ایک 20 فٹ کے نیزے میں پرو کر عین اس جگہ نصب کر دیا گیا جہاں اس نے چارلس اول کا ٹرائل کیا تھا۔ مہذب برطانوی پارلیمنٹ نے تختہ الٹنے والے کے سر کو ٹانگ تو دیا لیکن اسکے واپس قبر میں پہنچانے کا انتظام کرنا بھول گئی اور مختلف روایات کے مطابق ایک ذوردار آندھی نے کرامویل کے سر والے Spike کو 1672/1685 یا پھر 1703 میں زمین پر دے مارا جسکے بعد وہ امیر لوگوں کے ڈرائنگ روموں کی زینت رہا۔ الحال 25 مارچ 1960 کو کیمبرج یونیورسٹی کے سڈنی سسیکس کالج میں اسکی باقاعدہ تدفین ہوئی۔

اینگلو سیکسن بادشاہ ہیرلڈ ہیئرفٹ کنٹ کا ناجائز بیٹا تھا۔ اسکے مرنے کے بعد اسکے سوتیلے بھائی نے غداری کے الزام پر اسکی لاش کو قبر سے نکلوایا اور سوروں کے باڑے میں پھینکوا دیا۔

سائمن ڈی منٹفورٹ لیسٹر کا چھٹا ارل تھا جو ایوشام کی لڑائی 1265 میں زخمی ہو کر مرا۔ ہنری سوئم کے نائٹس نے بغاوت کے جرم پر اسے قبر سے نکالا، سر کاٹا اور پھر تقسیم کر دیا۔

راجر ڈیموری برٹن برج کی لڑائی میں مارا گیا مگر ایڈورڈ دوم نے غداری کے جرم میں اسے قبر سے نکال کر سزا دی۔

جان وائیکلف 1384 میں مرا۔ ٹھیک 45 سال بعد اسکی لاش کو برآمد کر کے آگ لگا دی گئی۔

والڈ ڈی ایمپالر 1476 کے مرنے کے بعد اسکا سر کاٹا گیا۔

جیکوپو بونفاڈیو کا Sodomy کے الزام پر سر کاٹا گیا۔ بعد ازاں اسکے جسم کو آگ

لگائی گئی۔

سولھویں صدی میں جنوبی سویڈن کے غلاموں نے بغاوت کر دی۔ نِلس ڈیک جو انکا لیڈر تھا اسے قبر سے نکال کر اسکا ٹرائل کیا گیا۔

برطانوی ملکہ میری اول کے حکم پر مارٹن بوسر کو قبر سے نکال کر مارکیٹ سکوائر کیمبرج میں آگ لگا دی گئی۔

گووائر کانسپریسی کے اختتام 1600 پر اسکے سرخیل جان، ارل آف گووائر اور اسکے بھائی الیگزینڈر کو بغاوت کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ اسکے بعد انکے جسموں کے ٹکڑے کر کے ملک کے مختلف حصوں میں نمائش کیلئے رکھ دیئے گئے۔

گیلیز وین لیڈنبرگ کو بعد از مرگ غداری ثابت ہونے پر قبر سے نکال کر پھانسی دی گئی۔

روس میں عام عوام نے مشہورِ زمانہ راسپوٹین کی لاش کو 1917 میں قبر سے نکال کر آگ لگا دی۔

سن 1918 میں روسی جنرل لاور کورنیلوف کو غداری کے الزام میں بالشویک عوام نے قبر کھود کر باہر نکالا۔ اس پر تشدد کیا، روندا اور پھر آگ لگا دی۔

گبرڈ وان بلچر 1819 میں مارا گیا۔ سوا سو سال بعد 1945 میں روسی افواج نے اسے قبر سے نکالا اور اسکے سر کیساتھ باقاعدہ فٹبال کھیلا گیا

عظیم جنرل گارسیہ ہیٹی کے آمر پاپا ڈاک کا حمائیتی اور سہولتکار تھا جو 1971 میں اپنی موت مرا۔ اسکے جنگی جرائم اور غداری پر عوام نے 1986 میں اسے قبر سے نکالا اور علامتی طور پر تشدد کر کے قتل کیا۔

مہذب دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ رہ گئی اسلامی تاریخ تو سن 61 ہجری کربلا میں خاندانِ نبویؐ کو مسلمانوں نے بغاوت کا الزام لگا کر تہہِ تیغ کیا۔ امام حسنؑ کے تیرہ برس کے بیٹے قاسم کی لاش کو گھوڑوں کے سُموں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا یہاں تک کہ چھ ماہ کے علی اصغر کا قتل بھی ثواب سمجھ کر کیا گیا۔ ظلمِ عظیم کرنے کے بعد تمام شہدا کے سر کاٹ کر انہیں نیزوں میں پرویا گیا اور شہر شہر خانوادہ رسالتؐ کی تذلیل کا انتظام کر کے انہیں سروں سمیت نو سو میل دور دمشق لیجایا گیا جہاں از خود خلیفہ بنا بیٹھا یزید امامؑ عالی مقام کے کٹے سر پر چھڑیاں مارتا رہا۔

مطالعہ پاکستان محمد بن قاسم، ابدالی، سبتگین، غوری اور جن مغلوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے وہ کوئی حاجی ثناء اللہ نہیں تھے۔ تمام فاتحین میں سے کسی ایک نے بھی اسلام کی خدمت نہیں کی۔ تلوار کے ذور پر مسلمان کرنا کچھ بھی کہلائے سُنتِ محمؐدی نہیں ہو سکتی کیونکہ محؐمدِ عربی خالصتاً حُسنِ سلوک تھے۔

بار بار دِلّی تاراج کرنے والوں نے راستے میں کتنے انسانوں کو قتل کیا، کتنوں کے گھر جلائے، کھوپڑیوں کے مینار بنائے یہ سرکاری پاکستانیوں کو کوئی نہیں بتاتا اور نہ اس جہالت زدہ معاشرے میں اسکے بتانے کی اجازت ہے۔ ذلیل ایوب خان سے لیکر غدار پرویز مشرف تک آمروں نے ہزاروں ماورائے عدالت قتل اور ظلم و جور کی ایسی ایسی کہانیاں رقم کی ہیں کہ قائدِ اعظم ہوتے تو شرم سے ڈوب مرتے۔ ان جانبازوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے دوران محض نو ماہ کے آپریشن میں 18 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔ صرف ایک رات میں 30 ہزار بنگالی عورتوں کی عزتوں کو تارتار کیا مگر پھر بھی یہ مقدس گائے ہیں۔ انہوں نے کبھی اس ملک کے عوام کی رائے کو نافذ نہیں ہونے دیا تا کہ انکے ڈی ایچ اے اور کاروبار بند نہ ہو جائیں۔ کوئی ان سے پوچھتا نہیں کہ جب چار طرف تم کھڑے ہو تو ملک میں سمگلنگ والی اشیاء اور منشیات کس کی اجازت سے داخل ہوتی ہیں؟ یہ واپڈا ڈیوٹی کریں یا سیلاب ڈیوٹی اسکا الگ بل حکومت کو بھیجتے ہیں مگر لوگ یہی جانتے ہیں کہ یہ مفت کام کرتے ہیں۔

جو بولے اسے اٹھا لو اس پر اپنے ٹرینڈ لوگ چھوڑ کر اسکی تذلیل کرو اسے نو نمبرز سے کال کر کے دھمکیاں دو لیکن اسکے خلاف کہیں کوئی رپورٹ نہیں کٹے گی لیکن اگر کسی نے فوجی آمر کیخلاف آرٹیکل 6 کی کاروائی کرنے کی کوشش کی تو عمران خان اور طاہرالقادری جیسے دھرنے دیکر آمر کے باھر جانے کا انتظام کریں گے۔ آج عدالت نے آمر کو سزائے موت دی تو پورا ملک خوشی منا رہا ہے سوائے چوکیدار اور اسکے ہمنواوں کے مگر وہ وقت دور نہیں جب غداری اور جنگی جرائم پر یہ قوم ان غاصبوں کا اپنے ہاتھوں سے احتساب کر گی کیونکہ یہی تاریخ کا سبق ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
روبینہ فیصل کا ایک اردو کالم