پسِ زمین پسِ آسمان چلا جائے
جسے بھی جانا ہے آزر جہاں چلا جائے
یہ معجزہ ہے ترے اسمِ پاک کا ورنہ
ہے کون جو سرِ آبِ رواں چلا جائے
محاذِ زیست سے کچھ وقت بچ رہا ہے مجھے
میں سوچتا ہوں کہ مجنوں کے ’’ہاں‘‘ چلا جائے
پلک جھپکنے کا عرصہ ہے صبح و شام کے بیچ
اب اتنی دیر میں سورج کہاں چلا جائے
چراغ دیکھنے والا ہو خدوخال اپنے
اور آئینےمیں اچانک دھواں چلا جائے
بس ایک لمحے کی مہلت ملے مجھے خود سے
یہ ایک لمحہ اگر رائیگاں چلا جائے
میں اپنی راہ الگ سے بناؤں گا آزر
مری بلا سے کوئی کارواں چلا جائے
دلاور علی آزر