پیرہن اور بھی تابناک ہوا
جب تری رہ گزر کی خاک ہوا
جسم پر اوڑھ کے ردائے زخم
میں جیا تو کبھی ہلاک ہوا
مجھ کو کیسے وصولتا کوئی
میں غلط سے پتے پہ ڈاک ہوا
تب سے سیکھا ہے تیرنے کا ہنر
جب سے ہے بادبان چاک ہوا
کتنے چہرے ملول ہیں ساحل
شہر اک دشتِ خوفناک ہوا
ساحل سلہری