"مجھے اب اور نا سینا”
وہ تیزی سے ادھڑتا جا رہا تھا
ہر اک دن اس کے بخیوں سے الجھ کر رات ہو جاتا
وہ روزانہ
بساط روز و شب پہ سانس کے مہرے چلا کر مات ہو جاتا
وہ سینہ کھول دیتا اور گہری سوچ میں رہتا
"یہ سینہ ہے
کہ تجریدی مصور کی کوئی تصویر ہے
جس کے دھڑکتے کینوس پہ بال بکھرائے
لکیریں چیختی ہیں
اور نقطے بین کرتے ہیں
یہ گھاو میرے اپنے خون نے مجھ پر لگایا تھا
مرے بھائی،
جنھیں، مجھ سے زیادہ باپ کی جاگیر پیاری تھی
یکایک پاس آئے اور مجھ کو چیر کر دو لخت کر ڈالا
مری ماں نے مجھے جوڑا
پھر اپنے بازؤں کے نرم سٹریچر پہ رکھا
اور اپنے آنسوؤں کا تار دہرا کر مجھے بخیہ لگایا تھا
یہ وہ گھاو ہے۔۔۔!
یہ پھٹ اس چوٹ کا ہے
جو زمانے نے لگائی تھی
میں جب تعلیم سے فارغ ہوا
تو
میرے دونوں ہاتھ سورج کی طرح چمکار دیتے تھے
بڑے لوگوں کے لو دیتے اقوال روشن تھے
عقیدے کی چمک دیتی ہوئی قندیل جلتی تھی
مگر مجھ پہ کھلا
کہ دوجہاں اک دوسرے سے مختلف ہیں
اور ان کے درمیاں مکتب کا پھاٹک ہے،
مجھے مکتب نے روکا تو زمانے نے مجھے کھینچا
نتیجتا میں ٹوٹا
اور پھر علم و عمل کی ملگجی سرحد پہ گر کے پارہ پارہ ہوگیا۔۔۔ !
اور پھر وقت نے ہاتھ میں سوزن لی
زمیں کے گھومتے گولے سے اک دھاگہ نکالا
اور سینے لگ گیا
اس نے مرے ادراک کو باریک ٹانکے سے سیا
وجدان کے ایک ایک روزن پہ رفو کاڑھا
بلا کا بخیہ گر ہے وقت
آفت کا رفوگر ہے
وہ سیتا بھی ہے سمجھتا بھی ہے
"او بے خبر !
دیکھو،
یہ دنیا درمیانی ذہنیت کے، مصلحت جو،
کند لوگوں کے لیئے پیدا ہوئی ہے
یہاں حساس ہونا ایک جرم ہے
جس کی سزا کوئی نہیں دیتا،
بس اپنے آپ ملتی ہے
ذرا احساس کو تم آبگینے کی طرح دہلیز پر رکھو
تمہیں معلوم ہو جائے گا، پامالی کسے کہتے ہیں
کیونکہ لوگ ریوڑ کی طرح پاؤں سے چلتے ہیں
نگاہوں سے نہیں چلتے”
وہ سینہ کھول دیتا اور گہری سوچ میں رہتا
"مرا احساس چکناچور ہے پھر بھی چمکتا ہے
مرے سینے کے سب ٹانکے کھنچے ریشوں کے ہاتھوں سے
پھسلتےجا رہے ہیں
مجھے اب اور نہ سینا
مرا سینہ نہ سینا
اب تو اس میں سانس بھرنے کی بھی جگہ باقی نہیں
ٹانکا بھلا کیسے بھرا جائے” !
وحید احمد