دھوپ کمرے میں چلی آئی تھی
جب دریچے سے شناسائی تھی
شہر کا شہر امڈ آیا تھا
کیا عجب پرسشِ تنہائی تھی
کچھ تو بدلا ہے بچھڑ کر اس سے
رات کیوں نیند نہیں آئی تھی
شہرِ گریہ کے شب و روز نہ پوچھ
رات کے بعد بھی رات آئی تھی
میں نے شمشیر بنالی اس سے
تم نے زنجیر جو پہنائی تھی۔
تم نے سمجھا تھا نوازش جس کو
وہ تو زخموں کی پذیرائی تھی
اس نے آنکھوں سے پکارا تھا مجھے
مجھ کو آواز نظر آئی تھی
وہ تو کام آگئی وحشت طارق
ورنہ رسوائی ہی رسوائی تھی
ڈاکٹر طارق قمر