نئی زمین نیا آسماں بنانا ہے
ترے مکان سے بہتر مکاں بنانا ہے
جو بات سچ ہے نہیں کھولنی زمانے پر
تخیلات کو حسن بیاں بنانا ہے
ہوا سے تیری حمایت میں گفتگو کے بعد
دیے کی لو کو ترا پاسباں بنانا ہے
تلاش کرنے ہیں کچھ اپنے جیسے لوگ مجھے
اور ایک حلقۂ آوارگاں بنانا ہے
سپرد کر کے کسی کو مکان دل شہزادؔ
خود اپنے آپ کو بے خانماں بنانا ہے
قمر رضا شہزاد