- Advertisement -

آصف نے کہا

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

آصف نے کہا

’’کام چور نوکر تو قریب قریب سبھی ہوتے ہیں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر باقاعدہ چور ہوتے ہیں‘‘

اور اس نے اپنے ایک نئے نوکر کی داستان سنائی جو بے حد مستعد تھا۔ اس قدرمستعد کہ بعض اوقات آصف کے آواز نہ دینے پربھی بھاگا بھاگا آتا تھا اور اس سے پوچھتا۔

’’کیوں صاحب آپ نے بلایا مجھے؟‘‘

آصف نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’مجھے نوکروں میں اس قدرپھرتی، چالاکی اور مستعدی پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب راجہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ آسو تم بہت خوش قسمت ہو کہ بیٹھے بٹھائے تمہیں ایسا نوکر مل گیا تو۔ ‘‘

راجہ غلام علی نے بات کاٹ کرکہا۔

’’بخدا مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کم بخت چور ہو گا!‘‘

آصف راجہ سے مخاطب ہوا۔

’’میرا اپنا اندازہ یہ تھا کہ وہ یا تو چور ہے یا پہنچا ہوا ولی۔ اس کے بین بین وہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ میں نے راجہ صاحب سے کہا، قبلہ اگر آپ اس نوکر کو ایک ایسا دفینہ سمجھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے مجھے مل گیا ہے تومیں آپ کی دوستی کی خاطر قربانی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ بڑے شوق سے یہ سوغات اپنے گھرلے جاسکتے ہیں۔ ‘‘

راجہ نے کہا۔

’’میں نے انکار نہیں کیا تھا۔ ‘‘

’’درست ہے!‘‘

آصف مسکرایا۔

’’غلطی میری تھی، اگر میں نے اس وقت وہ نعمت غیر مترقبہ آپ کو سونپ دی ہوتی تو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے مجھے چالیس روپے اور ایک عدد ریلوے پاس کا داغِ مفارقت برداشت نہ کرنا پڑتا۔ ‘‘

راجہ ہم سے مخاطب ہوا۔

’’آصف سے ذرا ساری داستان سنو۔ کافی دلچسپ ہے!‘‘

آصف نے کہا

’’معاف فرمائیے۔ مجھے یہ داستان غم سناتے کوئی فرحت حاصل نہیں ہوتی۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’بات یہ ہے منٹو۔ کہ چغد پن اصل میں میں نے کیا۔ وہ بہت چالاک تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن اپنی ہوشیاری مجھے کافی اعتماد تھا۔ صبح سویرے اٹھ کر جب میں نے میز کی ٹرے دیکھی تو اس میں خلاف معمول میرا ریلوے پاس نہیں تھا۔ اس کے خانے میں دس دس کے چار نوٹ تھے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ساتھ ہی غائب تھے۔ نوکر میری توقع کے مطابق موجود تھا۔ چنانچہ میں نے اِدھر اُدھر تلاش شروع کی۔ میز کے نچلے دراز میں پاس مع روپوؤں کے فائلوں کے نیچے موجود تھا۔ میں نے اُسے وہیں رکھ دیا۔ یہ تم سمجھ سکتے ہو کیوں؟‘‘

میں نے ا ثبات میں سرہلایا۔

’’بہت اچھی طرح۔ ‘‘

راجہ مسکرانے لگا۔ آصف نے اس کی طرف دیکھا۔

’’راجہ صاحب مسکرا رہے ہیں۔ اس لیے کہ میں نے خود کو چغد ثابت کیا۔ لیکن واقعہ یہ ہے۔ ‘‘

وہ مجھ سے مخاطب ہوا

’’بات یہ ہوئی منٹو کہ میں نے ایک پلان بنایا۔ یہ تو صاف ظاہر تھا کہ اس نوکر نے جس کا نام مومن تھا کس نیت سے وہ روپے فائلوں کے نیچے چھپائے تھے۔ اور ناشتے سے فارغ ہوکر وہ بڑے اطمینان سے اپنا کام کرنا چاہتا تھا اور میں بھی اسے بڑے اطمینان سے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ پلان یہ تھا کہ میں حسب معمول نہانے کے لیے غسل خانے میں جاؤں اور تھوڑا سا دروازہ کھلا رکھوں اور اسے دیکھتا رہوں۔ غسل خانے سے اس کمرے پر جس میں وہ میز پڑا تھا بڑی آسانی سے نگاہ رکھی جاسکتی تھی۔ یہ پلان اس قدر واضح اور مکمل تھا کہ میں نے دل ہی دل میں اس مردِ مومن کو گرفتار کرکے بعد میں اپنی روایتی گناہ بخش طبیعت کے باعث اسے چھوڑ بھی دیا تھا۔ ‘‘

راجہ ہنسا۔ آصف بھی ہنسا۔

’’ہاں تو منٹو میں نہانے کے لیے غسل خانے میں چلا گیا۔ دروازہ پلان کے مطابق میں نے تھوڑا سا کھلا رکھا۔ مگر نہانے میں کچھ ایسا مشغول ہوا کہ سب کچھ بھول گیا۔ معلوم نہیں غسل خانے میں آدمی کام کی باتیں بھول کر کیوں ایسی دنیا میں کھو جاتا ہے جہاں اور سب کچھ ہوتا ہے مگرکوئی غسل خانہ نہیں ہوتا!‘‘

میں نے مسکرا کرکہا۔

’’فقرہ خوبصورت ہے، گو کچھ معنی نہیں رکھتا۔ ‘‘

آصف نے ذرا تیزی سے کہا۔

’’کیوں معنی نہیں رکھتا۔ اگر غسل خانے کے بجائے میں پینٹری میں گیا ہوتا یا دوسرے کمرے کو میں نے اپنا محاذ بنایا ہوتا تو یقیناً اپنے مجوزہ آپریشن میں کامیاب رہتا۔ بخدا مجھے تو اس دن سے نفرت ہو گئی ہے دنیا کے تمام غسل خانوں سے۔ ‘‘

راجہ مسکرایا۔

’’آج کل آپ غسل آفتابی فرماتے ہیں۔ ‘‘

آصف بھی مسکرایا۔

’’غسل آبی ہو، آفتابی ہو یا مہتابی۔ مجھے سب سے نفرت ہو گئی ہے۔ تو اس دن سے تیمم پر گزارہ کررہاہوں۔ باہر نکل کر کنگھی کرتے ہوئے جب مجھے اپنا پلان یاد آیا تو دوڑ کر دوسرے کمرے میں گیا۔ فائلوں کے نیچے پاس غائب تھا۔ خدا کی قسم منٹو مجھے ان چالیس روپوں کا افسوس نہیں تھا۔ صدمہ اس بات کا تھا کہ سارا پلان غسل خانے کی بدولت غارت ہو گیا۔ اور پاس ضائع ہو گیا۔ خواجہ ظہیر جو اس وقت تک خاموش تھا بولا

’’آصف صاحب نے اس روز جھنجھلاہٹ میں ٹکٹ کے بغیر سفر کیا اور دھر لیے گئے۔ واپسی پر آپ کا ارادہ تھا کہ چار پانچ دوستوں سمیت انتقام لینے کے لیے ٹکٹ کے بغیر سفر کریں مگر آپ کی روایتی دور اندیشی کام آگئی اور آپ اس خطرناک عزم سے باز رہے۔ ‘‘

راجہ نے سگرٹ سلگایا اور اپنے موٹے موٹے گدگدے گالوں پر ہاتھ پھیر کر ایک لمبی داستان سنانے کے لیے خود کو تیار کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

’’چور نوکروں کا ذکر آیا ہے تو مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ ‘‘

میں نے ان کی بات کاٹی

’’اتفاق کی بات ہے کہ یہ دلچسپ واقعہ آپ اتنی مرتبہ اس قدر غیر دلچسپ طریقے پربیان فرما چکے ہیں کہ اب اس غریب کی ساری وقوعیت ختم ہو چکی ہے۔ اور دلچسپی۔ ‘‘

راجہ کے گال تھرتھرائے

’’چلو ہٹاؤ۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے مجھ سے اجازت لی

’’اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک واقعہ سناؤں۔ ممکن ہے آپ کو اس میں دلچسپی کا کوئی پہلو مل جائے۔ ‘‘

خواجہ ظہیر عام طور پر شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہونیوالی گفتگو میں حصہ نہیں لیا کرتا تھا اور اپنا وہی تجربہ معرض بیان میں لایا کرتا تھا۔ جو اس پر کافی اثر انداز ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا

’’آپ تکلف سے کام نہ لیں خواجہ صاحب۔ بے تکلف ارشاد فرمائیں۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے قدرے تکلف سے کہنا شروع کیا

’’دس روپے کی چوری بظاہر بالکل معمولی چوری ہے۔ گھر میں آئے دن نوکرایسی چوریوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ میں دہلی میں تھا۔ فتح پور میں میرا مکان تھا۔ میرا خیال ہے بمبئے جاتے ہوئے آپ ایک دفعہ وہاں ٹھہرے بھی تھے۔ ‘‘

میں نے جواب دیا

’’جی ہاں۔ ٹھہرا کیا تھا پورے دس روز قیام کیا تھا۔ ‘‘

’’تو آپ نے غلام قادر کو ضرور دیکھا ہو گا۔ ادھیڑ عمر کا تھا۔ بڑی بڑی مونچھیں۔ ‘‘

مجھے یاد آگیا۔

’’جی ہاں۔ جی ہاں میں اب اسکی تصویر اپنی آنکھوں کے سامنے لاسکتا ہوں۔ مگر وہ تو۔ وہ تو اچھا خاصا۔ میرا مطلب ہے ایماندار آدمی معلوم ہوتا تھا۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے کہا

’’میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ آپ سارا واقعہ سن لیجیے اس لیے آپ یقیناً کوئی نہ کوئی نتیجہ برآمد کرلیں گے۔ واقعہ یوں ہے۔ میری بیوی کی عادت ہے کہ جب میں تنخواہ لاکر اس کے حوالے کرتا ہوں تو اس میں سے کچھ روپے نکال کر کسی کپڑے کی تہہ میں رکھ دیتی ہے یا کسی الماری کے کسی کونے میں چھپا دیتی ہے اور بھول جاتی ہے۔ ‘‘

راجہ نے مسکراکر کہا۔

’’آپ تو عیش کرتے ہوں گے؟‘‘

خواجہ ظہیر نے راجہ سے مختصراً

’’جی نہیں‘‘

کہا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’وہ بھولتی نہیں۔ دل میں یہ فرض کرلیتی ہے کہ بھول گئی ہے۔ اس کو پس انداز کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ آتا ہے۔ ‘‘

آصف نے میری طرف دیکھا۔

’’منٹو۔ یوں کہیں خواجہ صاحب کہ ان کی بیگم صاحبہ پس انداز کا ترجمہ کردیتی ہیں۔ ‘‘

خواجہ ظہیر مسکرایا۔

’’جی ہاں۔ کچھ ایسا ہی سمجھیے۔ تو قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ اس نے دس کا ایک نوٹ بک شیلف کے نیچے رکھ دیا اور بھول گئی۔ ‘‘

’’اپنے نہ بھولنے والے انداز میں‘‘

آصف نے اپنا سگریٹ سلگایا اور ظہیر کو پیش کیا۔ ظہیر نے سگریٹ لے کرشکریہ ادا کیا اور واقعہ کی تفصیل بیان کرنے لگا۔

’’اپنے نہ بھولنے والے انداز میں وہ دس روپے کے اس نوٹ کو بھول چکی تھی۔ د وہ کس پوزیشن میں پڑا ہے، کب سے پڑا ہے یہ اس کو اچھی طرح یاد تھا۔ اس لیے جب وہ غائب ہوا تو اس نے مجھ سے اس کے بارے میں استفسار کیا۔ آصف نے ازراہِ مذاق پوچھا

’’کیا وہ ہر روز صبح اٹھ کر کونے کھدرے دیکھ لیا کرتی ہیں جہاں انھوں نے حسب توفیق کچھ نہ کچھ بھولا ہوتا ہے؟‘‘

ظہیر نے جواب دیا۔

’’ہر روز صبح اٹھ کرنہیں۔ لیکن دن میں ایک مرتبہ سرسری طور پر دیکھ لیا کرتی ہیں۔ چنانچہ جب ان کو اس نوٹ کی گمشدگی کا علم ہوا تو سب سے پہلے اُن کو مجھ پر شبہ ہوا۔ ‘‘

راجہ نے پوچھا۔

’’آپ کبھی کبھی خود کو یہ دھوکا دینے کے لیے آپ نے ایسی چوری کی ہے جس کا علم آپ کی بیگم صاحب کو۔ آپ۔ آپ خود کو یہ دھوکا۔ ‘‘

منٹو صاحب نے فقرے کو صحیح اور با مطلب کرنے کی کوشش کی۔ مگر ناکام رہا۔

’’منٹو۔ تم سمجھ گئے نا میرا مطلب؟‘‘

میرے بجائے خواجہ ظہیر نے جواب دیا۔

’’ایسی چوریاں کون خاوند نہیں کرتا۔ کبھی کبھی بوقت ضرورت اس جرم کا ارتکاب کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ اس موقعہ اس کا شبہ غلط تھا۔ مجھے ضرورت تھی اس لیے کہ ایک دوست کو سینما لے جانا تھا۔ لیکن میں نے وہ نوٹ اٹھا کر پھر اس خیال سے وہیں رکھ دیا تھا کہ دو تین روز کے بعد اس کی شدید ضرورت پڑنے والی تھی۔ میں نے چنانچہ اپنی بیوی کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ مجھے اس نوٹ کی چوری کا کوئی علم نہیں۔ ‘‘

راجہ نے پوچھا

’’ان کو یقین آگیا؟‘‘

’’جی نہیں‘‘

آصف نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا

’’وہ بیوی ہی نہیں جسے خاوند کی بات پر یقین آجائے۔ لیکن پھر بھی میں نے اپنی سی کوشش کی اور بالآخر اس کو یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ نوٹ میں نے نہیں چرایا تھا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ چوری اگر میں نے نہیں کی تو کس نے کی تھی۔ کیونکہ یہ تو مسلمہ امر تھا کہ نوٹ خود بخود غائب نہیں ہوا۔ چرایا گیا ہے اور دو اور دوچار بنانے سے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ میرے دفتر جانے کے بعد کسی نے اس پر ہاتھ صاف کیا ہے کیونکہ دفتر جاتے ہوئے میں نے اسے چرانے کا خیال کیا تھا۔ اور اسے کسی دوسرے وقت پر اٹھا دیا تھا۔ ‘‘

راجہ مسکرایا۔

’’بزرگوں نے وہ ٹھیک کہا ہے۔ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے راجہ کی بات سنی مگر بزرگوں کے اس کہے کے متعلق اپنے خیال کا اظہار نہ کیا

’’گھر میں دو نوکر تھے، ایک ملازم قادر۔ دوسرا صادق۔ صادق دو دن سے چھٹی پر تھا۔ اس کی ماں بیمار تھی۔ بس ایک غلام قادر ہی تھا جس پر شک کیا جاسکتا تھا۔ مگر۔ ‘‘

اس نے براہ راست مجھ سے مخاطب ہو کرکہا۔

’’جیسا کہ آپ نے ابھی ابھی فرمایا تھا وہ اچھا خاصا ایمان دار آدمی معلوم ہوتا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہم اپنے شک کا اظہار کیسے کریں۔ نوکروں کو ڈانٹنے ڈپٹنے، مارنے پیٹنے اور ملازمت سے برطرف کرنے کا کام میرے ذمے ہے۔ ‘‘

راجہ نے ازراہ مذاق کہا۔

’’بڑا اہم پورٹ فولیو آپ کے ذمے ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں، بہت اہم۔ لیکن بڑا نازک۔ وہ ملازم خود رکھتی ہیں لیکن برطرفی مجھ سے کراتی ہیں‘‘

یہ کہہ کر خواجہ ظہیر مسکرایا۔ راجہ صاحب کے گال بھی مسکرائے

’’جس کا کام اسی کو ساجھے۔ کوئی اور کرے تو خدا معلوم کیا باجے‘‘

آصف نے کہا

’’ڈنکا‘‘

’’ڈنکا ہی ہو گا۔ ‘‘

جلدی سے کہہ کر وہ خواجہ ظہیر سے مخاطب ہوا

’’آپ ذرا جلدی اپنی داستان ختم کیجیے۔ مجھے اپنی ڈنکا کے ساتھ ایک جگہ جانا ہے۔ ‘‘

آصف بے تحاشا ہنسا۔

’’اپنی ڈنکا کے ساتھ؟‘‘

راجہ کے گال بوکھلا گئے۔

’’آئی ایم سوری۔ اپنی بیوی کے ساتھ!‘‘

سب ہنسنے لگے۔ میں نے خواجہ ظہیر سے کہا۔

’’راجہ صاحب کو اپنی بیوی کے ساتھ جانا ہے۔ اس لیے آپ یہ داستان جلدی ختم کردیجیے تاکہ یہ راستے میں اسے سنا سکیں!‘‘

خواجہ مسکرایا۔

’’بہت بہتر۔ ‘‘

پھر تھوڑی دیر رک کر اس نے کہنا شروع کیا۔

’’معاملہ بہت ٹیڑھا تھا۔ غلام قادر کو ملازم ہوئے صرف ایک مہینہ ہوا تھا۔ اس دوران میں اس نے مجھے اور میری بیوی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیاتھا۔ بڑا اطاعت گزار قسم کا آدمی تھا۔ ان دنوں سخت گرمیوں کے باعث برف کی بہت قلت تھی۔ ملتی تھی تو آٹھ آنے سیر مگر غلام قادر دو آنے کی اتنی ساری لے آتا تھا۔ صادق کو بہت تاؤ آتا تھا۔ جب میری بیوی اس سے کہتی کہ دیکھو غلام قادر کتنا اچھا ہے۔ تم تو اول درجے کے چور ہو تو وہ بھنا جاتا اور اسے گالیاں دیتا کہ وہ یہ سب کچھ اسے نکلوانے کے لیے کرتا ہے۔ جب پہلی مرتبہ وہ دو آنے کی توقع سے بہت زیادہ برف لایا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اتنی سستی تم کہاں سے لے آئے، تو اس نے جواب دیا کہ صاحب برف والا اپنی دکان بڑھا رہا تھا جتنی بچی تھی، سب کی سب اس نے مجھے دے دی۔ جواب معقول تھا۔ لیکن دوسرے روز وہ پھر دو آنے کی اتنی ہی برف لایا اور قریب قریب ہر روز لاتا رہا، کیونکہ میری بیوی نے اب سودا سلف لانے کا کام اسی کے سپرد کردیا تھا۔ اس کو میرے لڑکے سے بہت محبت تھی۔ ہر دوسرے تیسرے دن اس کو چاکلیٹ وغیرہ لے دیتا تھا۔ دو تین مرتبہ وہ میری بیوی کے لیے چنگیر بھر بھر کے موتیے کے پھول بھی لایا۔ اس پر چوری کا شک ہو سکتاتھا، لیکن مشکل یہ تھی کہ اس کا اظہار کیسے کیا جائے اور اس کی تصدیق کیونکر ہو۔ میں طبعاً بہت نرم ہوں، لیکن بیوی کی خاطر مجھے اکثر نوکروں کوڈانٹ ڈپٹ کرنی پڑتی ہے۔ جب چوری کا پتہ لگانے کے لیے مجھے بار بار اکسایا گیا تو میں نے ایک دن غلام قادر سے پوچھ گچھ کا تہیہ کرلیا۔ ‘‘

خواجہ نے ڈبیا سے ایک سگریٹ نکالا۔ راجہ نے گھڑی میں وقت دیکھا اور کہا

’’اللہ بیوی سے بچائے۔ ‘‘

خواجہ نے سگریٹ سلگایا۔

’’چنانچہ میں نے اُس کو اپنے کمرے میں بلایا اور کہا، دیکھو غلام قادر وہ دس روپے کا نوٹ جو تم نے بک شیلف کے نیچے سے اٹھایا تھا۔ واپس کردو۔ ‘‘

راجہ نے کہا۔

’’یہ طریقہ خوب تھا۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے راجہ کی بات کی طرف دھیان نہ دیا۔

’’اس نے کسی قدر گھبرا کر جواب دیا۔ صاحب کون سا دس روپے کا نوٹ۔ مجھے بالکل معلوم نہیں۔ اس پر میں نے اس کو ڈ انٹا۔ مگر وہ پھر بھی نہ بولا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ مجھے شکست ہورہی ہے تو میں نے زور کا ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔ یہ اس کی توقع کے خلاف تھا۔ ایک دو سیکنڈ کے لیے چنانچہ وہ بالکل مبہوت ہو گیا۔ میں نے ایک اور جڑ دیا اور بڑے سنگین لہجے میں اس سے کہا۔ دیکھو غلام قادرتم نے اگر سچ نہ بولا تو میں پولیس کے حوالے کردوں گا۔ اس نے جواب دیا۔ صاحب میں نے چوری نہیں کی۔ آپ مجھے پولیس کے حوالے کردیجیے!‘‘

راجہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

’’بڑا پکا چور تھا۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے نفی میں اپنا سر ہلایا۔

’’جی نہیں۔ وہ پکا چور تھا نہ کچا۔ میں نے جب دیکھا کہ میرا وار خالی گیا ہے تو بڑی پریشانی ہوئی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اس سے کیا کہوں۔ میں نے آغاز ہی انتہا سے کیا تھا۔ اب کیا کرتا۔ دو بڑے زناٹے کے تھپر میں نے اس کو مارے تھے۔ وہ بے گناہ بھی ہو سکتا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ چنانچہ میں نے صدق دل سے معافی مانگی۔ اور کہا دیکھو غلام قادر۔ مجھ سے زیادتی ہوئی ہے لیکن بات یہ ہے کہ وہ دس روپے کا نوٹ غائب ضرور ہوا ہے۔ میں نے اٹھایا نہیں۔ تم انکار کرتے ہو۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ یا تو ہم دونوں سچے ہیں یا دونوں جھوٹے۔ بیگم صاحبہ تمہارا کہنا مان لیں گی۔ لیکن مجھ پر ان کا شک بہت مضبوط ہو جائیگا۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری نیت تھی وہ نوٹ اٹھانے کی۔ بلکہ میں نے اٹھایا بھی تھا مگر پھر وہیں رکھ دیا تھا کہ جب بہت اشد ضرورت ہو گی تو لے لوں گا۔ ‘‘

میں اسی جذباتی رو میں کچھ اور بھی کہنے والا تھا کہ غلام قادر مضبوط لہجے میں بولا۔

’’وہ نوٹ میں نے اٹھایا تھا صاحب۔ ایک لحظے کے لیے میں چکرا گیا۔ ‘‘

راجہ نے کہا۔

’’بات چکرانے ہی والی تھی!‘‘

خواجہ ظہیر نے سگریٹ فرش پر پھینک کر بوٹ کے تلے سے بجھایا۔

’’جی ہاں۔ میں نے غلام قادر کی طرف دیکھا اور حیرت سے پوچھا، تم نے۔ تم نے یہ چوری کیوں کی؟۔ غلام قادر نے جواب دیا۔ کیا کرتا صاحب۔ بیگم صاحبہ نے تنخواہ نہیں دی۔ کہتی تھیں کہ میں ہمیشہ نوکر کی ایک مہینے کی تنخواہ دبا کر رکھا کرتی ہوں تاکہ وہ بھاگ نہ جائے۔ اور۔ اور۔ اس نے رُک رُک کر کہا۔ مجھے عادت ہے۔ مالکوں کی خدمت کرنے کی۔ ان کے سوا میرا کون ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میلے جھاڑن سے ان کو پونچھتے ہوئے وہ کمرے سے چلا گیا۔ ‘‘

راجہ نے پوچھا۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

خواجہ ظہیر نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔

’’کچھ نہیں۔ وہ گھر ہی سے چلا گیا تھا!‘‘

سعادت حسن منٹو

13 اکتوبر1951ء

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو