- Advertisement -

شبنم کی طرح صبح کی آنکھوں میں پڑا ہے

افروز عالم کی ایک اردو غزل

شبنم کی طرح صبح کی آنکھوں میں پڑا ہے

حالات کا مارا ہے پناہوں میں پڑا ہے

تھا زندگی کے ساز پہ چھیڑا ہوا نغمہ

بے ربط جو ٹوٹے ہوئے سازوں میں پڑا ہے

سورج کی شعاعوں سے الجھتا ہے مسلسل

سایہ ہے ابھی وقت کی باہوں میں پڑا ہے

تاریخ بتائے گی وہ قطرہ ہے کہ دریا

آنسو ہے ابھی وقت کے قدموں میں پڑا ہے

اس طرح وہ رد کرتا ہے عالمؔ کے کہے کو

جیسے کوئی بھرپور گناہوں میں پڑا ہے

افروز عالم

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
افروز عالم کی ایک اردو غزل