آپ کا سلاماردو تحاریرانور علی

دوسری شادی، معاشرہ اور منافقت

ایک اردو تحریر از انور علی

دوسری شادی، معاشرہ اور منافقت: ایک مشاہدہ

زندگی کی راہ پر چلتے ہوئے، میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو قریب سے دیکھا ہے جو محبت، عزت اور فیملی کے نام پر دوسرا نکاح تو کر لیتے ہیں، مگر نکاح کی اصل روح، اس کی ذمہ داریوں اور ایمانداری کو بھول جاتے ہیں۔ میرے قریبی دوستوں کے تجربات میرے لیے صرف کہانیاں نہیں بلکہ میری اپنی روح پر لکھی ہوئی سچائیاں ہیں، جو ہر وقت ذہن میں گونجتی رہتی ہیں۔

ایک دوست نے دوسری شادی کی، اس کی بچي اور پوری فیملی متاثر ہو گئی۔
دوسرا نکاح کیا، مگر پھر نہ بچوں کی پرواہ کی، نہ پہلے گھر کی ذمہ داری نبھائی۔ اس کی معصوم بيوي روز آنسو بہا کر اس ظلم کا آئینہ بنی رہی۔ دوسری طرف، میری ایک قریبی خاتون دوست جو دوسری بیوی بنی، اُسے گھر، آسائشیں تو ملیں، مگر نہ عزت، نہ پہچان، اور نہ ہی شوہر کی زندگی میں وہ مقام جو ایک بیوی کا حق ہوتا ہے۔

میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آج کے دور میں لوگ جب دوسرا نکاح کرتے ہیں،doosri shaadi تو اکثر یہ نکاح جذبات کی بجائے صرف خواہشات کی تسکین کے لیے کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ خود کو شریف، پاکباز اور دیندار دکھانے کے لیے نکاح کرتے ہیں تاکہ زنا سے بچ سکیں، مگر جب نکاح میں انصاف نہ ہو تو وہ زنا سے بھی زیادہ خطرناک بن جاتا ہے۔ کیونکہ زنا میں ایک وقتی سمجھوتا ہوتا ہے، مگر بےانصافی والے نکاح میں منافقت، دھوکہ، اور دل توڑنے کی انتہا ہوتی ہے۔ میرے عقیدے کے مطابق، اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کر سکتا ہے، مگر کسی کا دل توڑنے والا گناہ معاف کرنے سے پہلے بندے سے ضرور پوچھے گا۔

اس پس منظر میں، میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اپنی خواہش کی شدت میں آ کر بےانصافی والا نکاح کرتا ہے، تو اس سے بہتر ہے کہ اپنی خواہش کو ایسے طریقے سے پورا کرے جہاں نہ دھوکہ ہو، نہ عزت کا تماشہ، نہ زندگی کا خاتمہ۔ کیونکہ جو شخص دوسری بیوی کو صرف خواہش کے لیے رکھے، مگر اُسے عزت، وقت اور معاشرتی حیثیت نہ دے، وہ اُس عورت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے۔
پرانے وقتوں میں جب بادشاہوں کی رکھیلیں ہوتی تھیں، تب بھی وہ معروف، محفوظ اور حدود میں رہتی تھیں، اور اُن کے ساتھ بھی ایک مخصوص قسم کا احترام کیا جاتا تھا۔ مگر آج نکاح کے نام پر جو تعلقات قائم کیے جاتے ہیں، اُن میں نہ عزت باقی رہی ہے، نہ محبت، نہ ایمانداری۔ نکاح کا مفہوم "سکون” ہے، مگر آج وہ "شک”، "دھوکہ” اور "بےچینی” میں بدل چکا ہے۔

اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے کہ اگر تم انصاف کر سکتے ہو تو ایک سے زیادہ شادیاں کرو، مگر اگر انصاف نہیں کر سکتے تو "فواحِدۃ” یعنی صرف ایک ہی کافی ہے۔ عرب ممالکshaadi doosri میں آج بھی لوگ دوسری، تیسری، چوتھی شادیاں کرتے ہیں، مگر وہاں اس نظام کے تقاضے اور ذمہ داریاں بھی پوری کی جاتی ہیں۔ ہر بیوی کے لیے الگ گھر، آسائشیں، عزت اور وقت کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ یہ رشتہ منافقت نہیں بلکہ واضح، کھلا اور ذمہ دار ہوتا ہے۔

مگر ہمارے معاشرے میں لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے لیے نکاح تو کر لیتے ہیں، مگر ایمان، ایمانداری اور ذمہ داری سے خالی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف اپنی بیوی کا دل توڑتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کی زندگی سے بھی کھیلتے ہیں۔ اور پھر معاشرہ خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ ایسی روش سے نہ صرف عورتوں کا نقصان ہوتا ہے، بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقیات، محبت اور انسانی اقدار تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم نکاح کو خواہش نہیں، بلکہ ایمان، عزت اور برابری کی بنیاد پر نبھائیں۔ اگر ہم ایسی سوچ کو فروغ دیں تو نہ صرف بےانصافی کا خاتمہ ممکن ہے، بلکہ وہ سچا سکون بھی حاصل ہو سکتا ہے جو صرف ظاہری رشتے میں نہیں، بلکہ دل کی سچائی میں ہوتا ہے۔

انور علی

انور علی

انور علی — عزم اور خدمت کا سفر انور علی کا تعلق لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں، خیر محمد آریجا تحصیل باقرانی سے ہے۔ بچپن سے ہی تعلیم کے لیے جدوجہد کی، جہاں وسائل کی کمی اور معاشرتی ناانصافیاں تھیں۔ علامہ اقبال کے فکر اور خودی کے تصور نے انہیں زندگی کا نیا مقصد دیا۔ آج، انور علی اپنے وسائل سے ایک تعلیمی فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں، جو 275 غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ یہ بچے معاشرے کے قابل اور ذمہ دار فرد بنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے جینا ہے، اور انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button