- Advertisement -

مرے خدایا!

صابر رضوی کی ایک اردو نظم

مرے خدایا!

میں سوچتا ہوں

میں آج کل صرف سوچتا ہوں

کہ میرے خطے کی سرخ ہوتی ہوئی ہوائیں

کبھی جو میرِ عرب کی چوکھٹ کو چھونے جائیں

تو جھولیوں میں بہار لائیں

مرے خدایا !

میں سوچتا ہوں

میں آج کل صرف سوچتا ہوں

کہ میرے اعمال ، میری سوچوں

مری نمازوں ، مرے وظیفوں

مرے طریقوں، مرے سلیقوں میں

ایسا کچھ بھی نہیں ہے

جس سے رسولِ رحمت کو

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں پہنچیں

کچھ اس لیے بھی

مرے خدایا !

میں سوچتا ہوں

میں آج کل صرف سوچتا ہوں

مرے خدایا !

میں سوچتا ہوں

میں آج کل صرف سوچتا ہوں

وہ کون خوش بخت لوگ ہیں

جن کی قسمتوں میں بشارتِ سید الوریٰ ہے

وہ کون ہیں :جن کی نیکیوں میں ریا نہیں ہے

وہ کون ہیں: جن کی آستینوں میں اپنا اپنا خدا نہیں ہے

مرے خدایا!

میں سوچتا ہوں

میں آج کل صرف سوچتا ہوں

کہ اپنی جنت کو میں نے خود ہی بنایا دوزخ

میں تیرا بندہ : خطا و نسیان کا مرقع

تو میری ساری خطائیں پھر سے معاف کر دے

سحابِ غیض و غضب اٹھا کر

تو اپنی رحمت کو عام کر دے

مرے خدایا!

میں تیری رحمت کے بل پہ

پھر سے یہ سوچتا ہوں

کہ میرے خطے کی سرخ ہوتی ہوائیں

جلدی سے وجہِ رنگِ بہار روضے کو چھونے جائیں

تو جھولیوں میں بہار لائیں

پھر ان بہاروں میں کھلنے والے تمام پھولوں سے

رحمتوں والے میرے آقا کو

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں پہنچیں

مرے خدایا !

میں سوچتا ہوں

میں آج کل صرف سوچتا ہوں

صابر رضوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
منزہ سیّد کی ایک اردو نظم