تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا
تو حیرت زدہ شام کی زرد کرنیں
کسی گمشدہ روشنی والے لمحے کو
پلٹا کے لانے کی دُھن میں
اندھیری گُپھا کو
بڑھی جا رہی تھیں
المناک پیڑوں کے سائے
سمٹ بھی چکے تھے
سبھی سلسلے، رسم وعدہ و رخصت
نمٹ بھی چکے تھے …
تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا
تو لہرا کے اُٹھتے تھے گمنام جھونکے
بہت اُلجھی شاخوں پہ رکھا ہوا
بوجھ جھڑنے لگا تھا
کسی شوق رفتہ، کسی رنج تازہ کا
اُس شام کے سانولے، سرد چہرے پہ
کوئی نشاں تک نہیں تھا
وہ لمحہ تھا جب
اُس گراں بار، دیرینہ خواہش کا دل میں
گُماں تک نہیں تھا …
پھسلتی نگاہوں میں بے تابیوں کا
دھواں تک نہیں تھا
تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا
تو معمول کی ایک ساعت تھی
پر یہ ابھی تک کہیں ان زمانوں
کی آغوش میں جھولتی ہے
گلناز کوثر