زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کِیا
بھول کر ہر بات سمجھوتہ کِیا
لاؤلشکر تو اُسی کے ساتھ تھے
مَیں نے خالی ہاتھ سمجھوتہ کِیا
عمر کی پونجی غموں میں بانٹ دی
جھیل کر صدمات سمجھوتہ کِیا
صبر کا دامن نہ چھوڑا عمر بھر
جو بھی تھے حالات,سمجھوتہ کِیا
چشمِ گریہ نے مری تنہائی سے
ہجر کی ہر رات سمجھوتہ کِیا
رکھ لیا ہر بات میں اُس کا بھرم
کھو کے اپنی ذات , سمجھوتہ کِیا
مجھ کو اپنی سادگی کے ہاتھ سے
جب ہوئی شہ مات, سمجھوتہ کِیا
منزّہ سیّد