اردو شاعریاردو غزلیاتسعید خان

وہ بت گرفتہ دلوں کا نصیب ہو کر بھی

سعید خان کی اردو غزل

وہ بت گرفتہ دلوں کا نصیب ہو کر بھی
کسے ہوا ہے میسر قریب ہو کر بھی

ملا ہے یار بھی ہم کو سکونِ دل جیسا
نصیب ہو نہیں سکتا نصیب ہو کر بھی

غروبِ شب ہے کہ خود آگہی ستاروں کی
بجھے بجھے ہیں سحر کے نقیب ہو کر بھی

ہم اپنی ذات میں اک انجمن سے کیا کم تھے
تری طلب میں جہاں کے رقیب ہو کر بھی

شکستِ جاں بھی وفا چاہتی ہے خوابوں سے
نبھا رہے ہیں تعلق صلیب ہو کر بھی

قلندری میں نہاں ہے سکندری کا مزا
ہم اپنے آپ میں خوش ہیں غریب ہو کر بھی

سعید ظرف یہی ہے جہانِ حیرت میں
رہے ہیں سادہ روش ہم عجیب ہو کر بھی

سعید خان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button