ہم اپنی دھن میں مگن لوگ اس نگر کے نہیں
یہاں کے ہیں بھی تو اب راستے مفر کے نہیں
.
تمہیں ہم امن کے موسم میں ملنے آئیں گے
ہمارے دیس میں دن، ان دنوں سفر کے نہیں
.
جنم جنم سے ہے پروردہ ءِ غم ِ ہجراں
یہ داغ دل پہ کسی عمر مختصر کے نہیں
.
سیاہ شب ہے بہت احتیاط، ہم سفرو
شجر سرکتے ہوئے میری رہگزر کے نہیں
.
خود آپ اپنی شفا ہے مرض، مریضوں کا
کمال اس میں فسوں کار چارہ گر کے نہیں
.
بُرے بہت ہیں چلن ان کے، چال بھی ہو گی
غلط ارادے مرے اک بھی ہمسفر کے نہیں
.
بتانے آیا ہوں دستک کے بعد کیا ہوا تھا
میں جا رہا ہوں ترا انتظار کر کے نہیں
.
کبھی وہ باغ میں خود بھی دکھائی دیتا ہے
گلوں پہ کام کسی دست بے ہنر کے نہیں
ممتاز گورمانی