بے سبب اچھے لگے تازہ گلاب
جب کبھی مجھ کو ملے تازہ گلاب
یوں بیاضِ دل میں رکھیں گے اُنھیں
جس طرح کوئی رکھے تازہ گلاب
موسمِ گل پوش اترا چار سُو
عشق میں بھیجے گئے تازہ گلاب
شاخِ ماضی سے نہ لائے جا سکے
روزِ فردا کے لئے تازہ گلاب
موتیے کی بات ہی کچھ اور تھی
پھر بھی زلفوں میں سجے تازہ گلاب
اُن کی یادوں میں غزل ہم نے کہی
ہاتھ میں تھامے ہوئے تازہ گلاب
منزّہ سیّد