وفاؤں کے پیچھےجفاؤں کے پیچھے
حقیقت ہے کیا ان اداؤں کے پیچھے
بنا سوچے سمجھے چلے جا رہے ہیں
نہ جانے کہاں ہم صداؤں کے پیچھے
خلافِ توقع نظر آگئے ہیں
وہ چلتے ہوئے ہمنواؤں کے پیچھے
کہیں ڈوب جائے نہ اس دل کی کشتی
سنبھل کر چلو ناخداؤں کے پیچھے
مقدر کا لکھا سمجھتے تھے جن کو
تھی سازش کو ئ ان خزاؤں کے پیچھے
کبھی سوز بن کر کبھی سازِ ہستی
رہے دم بخود ہم خطاؤں کے پیچھے
محبت کا تھیں شازیہ شاخسانہ
تبھی ہم چلے ان سزاؤں کے پیچھے
شازیہ طارق