- Advertisement -

تو ہجرتوں کا زوال لکھ دے

سمیرا ساجد کی ایک اردو غزل

تو ہجرتوں کا زوال لکھ دے
مرے بھی حصے وصال لکھ دے

گئی رتوں میں جو کھو گئے تھے

وہ سارے رشتے بحال لکھ دے

محبتوں پر لگاؤں۔ پہرا

مری کہاں ہے مجال لکھ دے

بتا کے جاناں کی باتیں قاصد

ذرا سا میرا بھی حال لکھ دے

دو چار دن کی محبتوں کو

اگر ہو ممکن تو جال لکھدے

کٹھن ہے سانسوں کی الٹی گنتی

ہے ہجر مجھ پر محال لکھدے

ادھوری ہجرت کے وسوسوں سے

میں ہو چکی اب نڈھال لکھ دے

مہک جو بن کر میں پھیل جاؤں

گلاب جیسی مثال لکھ دے

زمیں کی اتنی سی ہے تمنا

فلک سے رشتہ بحال لکھ دے

بچھڑ گیا جو سمیرا تجھ سے

اسے ہو اس پر ملال لکھ دے

 

سمیرا ساجد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
غزل بقلم محمد ولی اللّٰہ ولی