دیوتاؤں کے دیوتا
اماوس کی رات تھی۔ دھرتی گھور اندھیرے کی کالی چادر اوڑھے دبکی بیٹھی تھی۔ اندھیرا اتنا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ سر سبز درخت جن بھوت کی پرچھائیں لگتے تھے۔ پہاڑی کے اوپر واقع شہر کا سب سے پرانا مندر کالی گھٹا کی طرح سناٹے اور خوف میں ڈوبا ہوا کھڑا تھا۔ تاریکی اتنی کہ مندر کے فانوس بھی شکست خوردہ دکھائی دیتے تھے۔ اس کے روشن دانوں سے چھنتی ہوئی روشنی خوف میں اور بھی اضافہ کر رہی تھی۔ آج کل اس مندر میں انسانوں کا داخلہ بند کر دیا گیا تھا۔
مندر کے سب سے بڑے ہال میں کئی قمقمے روشن تھے جن کی ملگجی سی روشنی میں ایک اجلاس جاری تھا۔ اس میں تمام لافانی دیوتا شریک تھے۔ دیوتاؤں کے دیوتا کی پیشانی پر چمکتے ہوئے پسینے کے قطرے اس کی پریشانی کو عیاں کر رہے تھے۔ دھرتی پر موجود کشمکش کی وجہ سے دن بدن مسائل بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ خاموشی کو توڑتے ہوئے صنم اکبر بولا ”اب اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ ہمارے ہما کو تو مار دیا گیا ہے۔“ یہ دربار شام ڈھلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ آج کل دیوتاؤں کی یہ محفل روزانہ سجتی تھی۔ ان میں سے ایک بولا ”دھرتی کو پھر کسی اوتار کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھیج دیں یا پھر خود ہی کسی اور روپ میں پدھاریں۔“ لیکن اس تجویز سے کوئی بھی متفق نہ تھا۔ موجودہ حالات میں صنم اکبر خود بھی متامل تھا۔
کافی بحث و تمحیض کے بعد بھی کوئی حل نہ مل سکا تو صنم اکبر نے آج کی محفل کو برخاست کرتے ہوئے غصے سے فرمان جاری کیا ”ققنس کو میرے پاس بھیجا جائے۔“ اور بڑبڑاتے ہوئے اپنی خواب گاہ کی طرف چل پڑا۔ ”میں خداؤں کا خدا ہوں۔ میرا ترکش خالی نہیں۔ اس میں بہت سے تیر موجود ہیں۔“
اگلی صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی دھرتی کے سب سے بڑے چمن میں ققنس کے نغمے گونج اٹھے۔ اس کی منقار میں موجود تین سو ساٹھ سوراخوں سے طرح طرح کے راگ ابلنا شروع ہو گئے۔ کیا چرند کیا پرند، کیا حیوان کیا انسان، سب اس کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے۔ لوگوں کے حواس گم ہو گئے۔ دیو مالائی گیتوں نے ان پر وجد طاری کر دیا۔ سورج نصف النہار پر تھا اور لوگوں کو اپنے گھر بار اور کاروبار کی کوئی فکر نہیں تھی۔ ققنس نے دوپہر کو کچھ وقفہ کیا تو لوگوں کو بھی گھر بار کا خیال آیا۔
شام ہوئی تو راگ کے ٹھاٹ اور مدھر گیت پھر ہواؤں کے دوش پر رچنا شروع ہو گئے۔ پوری دھرتی کے پرندے اپنے آشیانے چھوڑ کر اس کی طرف اڑان بھرنے لگے۔ دیوتاؤں کے پیرو کاروں نے دانا دنکا بھی بکھیرنا شروع کر دیا۔ ققنس لوگوں میں مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس کی آواز ایسی سحر انگیز تھی کہ وہ لوگ جو راگ رنگ کی شیدائی نہیں تھے وہ بھی اس کی طرف کھنچے چلے آئے۔ اس کے گیت زبان زد عام ہو گئے۔ اس کے راگوں نے مردہ دلوں کو زندہ کر دیا۔
لوگ اپنے مسائل بھول گئے۔ تمام انسان اس کے مدھر گیتوں میں کھو گئے۔ اسی چمنستان میں ققنس کا ایک مندر بنا دیا گیا۔ دیوتاؤں کے پجاری اور پروہت بھی اس کی مالا جپنا شروع ہو گئے۔ صبح کا آغاز بھور سمے کے راگ للت سے ہوتا۔ پھر بسنتی چولا پہنے راگ بہار سر سبز و شاداب خطے کو گل و گلزار کر دیتا۔ ملہار شروع ہو تا تو مچلتی بوندیں ٹپکنا شروع ہو جاتیں۔ سانجھ بیلے مالکونس اور آدھی رات کے مہمان درباری کی تانین لوگوں کو مدھرتا پلاتی، مدہوش کیے رکھتیں۔
کئی سال گزر گئے۔ اب راتوں کو جب راگ درباری کانہڑا روایتی شان و شکوہ کے باوجود اپنے اندر موجود یاسیت بکھیرتا تو لوگوں کی اداسی واپس آنا شروع ہو جاتی۔ انسانوں کی ناتمام امنگیں اور مایوسیاں دوبارہ تازہ ہو جاتیں۔ لوگ کب تک صرف دیوتاؤں کے بھجن، راگ اور گیت سن کر گزارا کرتے۔ دیوتاؤں کے مندر پھر آباد ہو گئے تھے اور انسانوں کے گھروں کی ویرانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ پھر ساری دولت دیوتاؤں کے چرنوں میں ڈھیر ہونا شروع ہو گئی تھی۔
کئی سالوں سے ققنس راگ رنگ بکھیر رہا تھا لیکن دن بدن دھرتی پر فتور بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ گیت انسانوں اور چرند پرند کا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ پت جھڑ کا موسم آیا تو درخت سوکھ گئے۔ سردی بڑھی تو ایک دن ققنس اپنی فطرت کے مطابق سوکھی لکڑیاں جمع کر کے لے آیا۔ انسانوں کی بے بسی، بھوک، افلاس اور غربت دیکھ کر ہما کو مارنے والے بھی آج گھات لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بڑی مشکل سے اس مصیبت سے جان چھڑوائی تھی۔ اب دیوتاؤں کا یہ چیلا ساری دولت سمیٹ کر ان کے مندر آباد کر رہا تھا۔
ققنس بھی سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے لکڑیوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر گانا شروع کیا تو ایک شکاری نے تاک کر تیر چلا یا۔ نشانہ چوک گیا۔ ققنس کا جنوں بھی انگڑائی لینے لگا اور اس نے دیپک راگ شروع کر دیا۔ ہر طرف آگ لگ گئی۔ چمن جلنا شروع ہو گیا۔ لوگوں نے تیر کمان سیدھے کر کے تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ اتنے بڑے پرندے کو تیروں کے وار زخمی کر رہے تھے لیکن وہ مرا نہیں تھا۔ راگ جاری تھا۔ آگ بھی پھیلتی جارہی تھی۔ بالآخر وہ اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل کر راکھ ہو گیا۔ سارا چمن جل گیا تھا۔ ہرطرف راکھ ہی راکھ تھی۔ انسانوں اور جانوروں کی جلی ہوئی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ کوئی خاندان ایسا نہ تھا جس کا کوئی فرد مارا نہ گیا ہو۔ لیکن انسانوں نے پھر بھی کلمہ شکر ادا کیا۔ اب انہوں نے دوبارہ اپنے گھروں اور کاروبار کو سنوارنا شروع کر دیا۔
سردیوں کی بارش آئی اور ساری راکھ بھی بہہ گئی۔ لوگوں کو پتا بھی نہ چلا اور اس بارش سے را کہ میں ایک انڈا پیدا ہوا جس سے ایک اور ققنس نے جنم لے لیا۔ ایک صبح لوگ جاگے تو اس کے گیت نئے درختوں کی شاخوں میں گونج رہے تھے۔ پورا ملک ہی امڈ آیا اور اس پر تیر برسانا شروع کر دیے۔ جدھر تیروں کی بوچھاڑ ہوتی وہ ادھر سے اڑ کر دوسری شاخ پر جا بیٹھتا۔ ماہر شکاریوں کے تیر بھی نشانے پر نہیں لگ رہے تھے۔ لوگ بھڑک اٹھے اور پہاڑی پر واقع دیوتاؤں کے مندر پر حملہ آور ہو گئے۔ در و دیوار تباہ کر کے اندر گھسے تو تمام دیوتاؤں کے استھان خالی تھے۔
اس کے بعد پھر کبھی ققنس کی آواز سنائی نہ دی۔
سید محمد زاہد