اردو غزلیاتشعر و شاعریصوفیہ بیدار

جیسے کسی کی بات میں

صوفیہ بیدار کی ایک اردو غزل

جیسے کسی کی بات میں کوئی اثر نہ ہو
اس پوری زندگی کا محبت ثمر نہ ہو

آئے کوئی دعا نہ قبیلوں کی پشت سے
تنہائی ایسی ساتھ کہ گرد سفر نہ ہو

لوگوں کے اس ہجوم میں تنہائی کا غرور
نقشے میں جیسے دنیا کے میرا ہی گھر نہ ہو

اک عالم خیال ہو ایسا جہاں کبھی
لوگوں کی بودوباش بھی ہو اور ڈر نہ ہو

دیوار کی رکاوٹیں ہر سمت ہوں دراز
تصویر بھی بناوں تو اس میں بھی در نہ ہو

ہو شوق ایسا بیکراں منزل سے بے نیاز
پہچان ایسی اندھی کہ جس میں نظر نہ ہو

صوفیہ بیدار

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button