جیسے کسی کی بات میں کوئی اثر نہ ہو
اس پوری زندگی کا محبت ثمر نہ ہو
آئے کوئی دعا نہ قبیلوں کی پشت سے
تنہائی ایسی ساتھ کہ گرد سفر نہ ہو
لوگوں کے اس ہجوم میں تنہائی کا غرور
نقشے میں جیسے دنیا کے میرا ہی گھر نہ ہو
اک عالم خیال ہو ایسا جہاں کبھی
لوگوں کی بودوباش بھی ہو اور ڈر نہ ہو
دیوار کی رکاوٹیں ہر سمت ہوں دراز
تصویر بھی بناوں تو اس میں بھی در نہ ہو
ہو شوق ایسا بیکراں منزل سے بے نیاز
پہچان ایسی اندھی کہ جس میں نظر نہ ہو
صوفیہ بیدار