دلیل پختہ نہ تھی معتبر حوالہ نہ تھا
چراغ جل تو رہے تھے مگر اجالانہ تھا
بھنور اٹھے تھے مرے نا خدا کی آنکھوں سے
وگرنہ مجھکو یہ دریا ڈبونے والا نہ تھا
کمال یہ ہے کہ اس بے وفا کوعلم نہیں
کہ روگ ہم نے بھی سنجیدگی سے پالا نہ تھا
ہر ایک لب پہ تھا تنگیِٗ رزق کا شکوہ
کسی ہتھیلی پہ محنت کا کوئی چھالا نہ تھا
تو میں نے اپنی صدا کو ہی کر لیا زخمی
دکھوں کا گیت کوئی اور گانے والا نہ تھا
قصیدے پڑھتا رہا شہر روشنی کےمگر
کہیں چراغ نہ تھے اور کہیں اجالا نہ تھا
نہ سوزِآبلہ پائی تھا اور نہ لطفِ سفر
کوئی جو راہ میں کانٹے بچھانے والا نہ تھا
ڈاکٹر طارق قمر