یہ جو لمحے گلاب جیسے ہیں
آ کہ تجھ بن عذاب جیسے ہیں
تو نہیں ہے تو ایسا لگتا ہے
سارے منظر سراب جیسے ہیں
یہ جو سپنے ادھر نہیں آتے
میرے خط کے جواب جیسے ہیں
پاس جائیں تو ہم پہ کھلتا ہے
لوگ سارے سراب جیسے ہیں
گیت ناہید کیا سناؤں میں
سُر سبھی اضطراب جیسے ہیں
ناہید ورک