دل کو یہ روگ تیرے لگانے سے آ لگا
اک اور درد اپنے ٹھکانے سے آ لگا
اس نے طویل عمر کی مجھ کو دعائیں دیں
اور موت کا فرشتہ سرہانے سے آ لگا
میں نے ہوا میں تیر چلایا تھا اور پھر
میرا ہدف ہی میرے نشانے سے آ لگا
خلد بریں سے کم نہیں دنیا کی دل کشی
جنت بدر ہوا تو زمانے سے آ لگا
پھر یوں ہوا کہ عکس سنبھالے نہیں گئے
چھپتے ہوئے میں آئنہ خانے سے آ لگا
بہتر تو یہ تھا ٹوٹ کے خود کو بناتا میں
میں چاک پر تو چاک گھمانے سے آ لگا
گھر سے نکل پڑا تھا میں تعبیر ڈھونڈنے
آنکھوں میں خواب اشک بہانے سے آ لگا
میں جانتا ہوں وہ تو مرا دوست ہی نہیں
میرے گلے تو جس کے بہانے سے آ لگا
چہرے پہ بکھری زلف کا مطلب نہ پوچھیے
سید عدید سانپ خزانے سے آ لگا
سید عدید