- Advertisement -

دادی کی جوانی

افسانے کی حقیقی لڑکی از ابصار فاطمہ سے اقتباس

نازیہ بھابھی کا ایک ہاتھ باسط کے بالوں پہ تھا۔
"دیور جی بیوی کے آتے ہی آپ ہمیں تو بھول ہی گئے۔”
"ارے نہیں نازی ایسی بات نہیں ہے، بس مصروفیت ایسی ہو گئی۔”
بسمہ ان دونوں کی گفتگو اور انداز گفتگو پہ گنگ سی ہوگئی تھی۔ غیر ارادی طور پہ ہی وہ بول پڑی۔
"باسط آپ کشن لے لیں نازیہ بھابھی ان ایزی ہورہی ہوں گی۔ آپ کی وجہ سے بندھ گئیں ہیں۔”
"لو اس میں بندھنے کی کیا بات ہے تم لوگوں کی شادی سے پہلے تو عموما شام میں ہم لوگ ایسے ہی باتیں کرتے تھے وقت کا پتا ہی نہیں چلتا تھا اصل میں میری اور باسط کی سوچ بہت ملتی ہے نا۔ میرے لیئے تو یہ بالکل بھائیوں جیسا ہے۔ مگر لوگ ان جذباتی رشتوں کو نہیں سمجھتے دماغ میں ہی گند ہوتا ہے۔” اسے اندازہ ہو گیا کہ نازیہ بھابھی اسے ہی کہہ رہی ہیں۔ جب کہ اس کے ذہن میں یہ پہلو تو آیا ہی نہیں وہ تو صرف اس پہ حیران تھی کہ یہی نازیہ بھابھی تھیں جنہوں نے کچھ دن پہلے اسے ٹوکا تھا۔
وہ خاموشی سے کچن میں آگئی۔ ہاں مگر جو سوچ پہلے تھی اس کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ میں اب وہ سمت بھی تھی جس کی نازیہ بھابھی نے تردید کی تھی۔ نوٹ تو وہ پہلے بھی کرچکی تھی کہ نازیہ بھابھی یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہی رہتیں تھیں کہ باسط کی پسند ناپسند کا انہیں بسمہ سے زیادہ پتا ہے اور اس کی ہر ذمہ داری وہ بسمہ سے زیادہ بہتر طور پوری کرسکتی ہیں بسمہ کے خیال میں یہ کوئی جتانے والی بات تھی نہیں ویسے، کیونکہ یہ عام فہم بات ہے کہ نئی آنے والی دلہن کو کچھ وقت تو لگے گا شوہر کی پسند نا پسند سمجھنے میں اور روز ملنے والے وہ چاہے آفس میں ساتھ کام کرنے والا چوکیدار ہی کیوں نہ ہو وہ اس شخص کے بارے میں زیادہ جانتا ہو گا۔ اسے بار بار جتانے کی کوئی وجہ بنتی نہیں تھی۔ سوائے اس کے کہ ان کا آپس میں تعلق ہی الگ نوعیت کا ہو۔ ورنہ وہ باسط کی کتنی ذمہ داریاں پوری کرتی ہیں وہ تو وہ ایک دفعہ دیکھ کر ہی سمجھ گئی تھی شادی سے پہلے۔ ان کا طریقہ ہی یہ تھا کہ کوئی بھی کام ہوتا وہ پہلے سے کرنا ہے کرنا ہے کا شور مچا دیتیں پھر ساتھ میں یہ بھی سنایا جاتا کہ گھر کی ساری ذمہ داری ہی ان پہ ہے وہ کام کرتی ہیں تو ہوتا ہے ورنہ تو اس گھر میں کچھ بھی نا ہو۔ اور آخر یہ ہوتا کہ وہ ہر کام کسی نا کسی کو سپرد کر کے کروالیا کرتیں اور کہنا یہی ہوتا کہ "میں” نے کیا ہے۔ بڑی بھابھی جن کا نام زیبا تھا وہ زیادہ بحث میں پڑنے والی خاتون نہیں تھیں بات چیت میں کچھ سخت مزاج خاتون لگتی تھیں مگر کسی کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتی تھیں۔ اور نازیہ بھابھی کبھی غلطی سے انہیں کچھ بول جاتیں تو وہ اچھا خاصا کرارا جواب ہاتھ میں تھما دیتی تھیں۔ بسمہ نے نوٹ کیا کہ یہی ایک کردار تھیں گھر کا جس سے نازیہ بھابھی پنگا لینے میں کتراتی تھیں۔ سنیہ سے تو نازیہ بھابھی کی تکرار تقریبا روز کا معمول تھی۔ دونوں کا رشتہ روایتی نند بھاوج جیسا تھا۔ نا سنیہ انہیں بخشتی نا یہ سنیہ کو۔ ساس سسر کی خدمت اور احترام کی جتنی لمبی لمبی تقریریں نازیہ بھابھی کیا کرتیں ان کے عمل اس سے بالکل ہی الگ تھے۔ ساس تو ان کے لیئے کسی گنتی شمار میں ہی نہیں تھیں۔ بسمہ کو کبھی کبھی ناچاہتے ہوئے بھی نازیہ بھابھی اور اس کی ساس کا رشتہ امی اور دادی جیسا لگتا۔ اسے حیرت ہوتی اپنے ان احساسات پہ کہ وہ نازیہ بھابھی کو امی سے ملا رہی ہے مگر یہ احساس بہت شدید ہوتا جسے وہ جھٹلا نہیں پاتی تھی۔ ان کی عموما باتیں ماں کی عظمت پہ مبنی ہوتیں مگر نا بسمہ نے انہیں ساس کا احترام کرتے دیکھا نا اپنے بچوں کی ٹھیک سے دیکھ بھال کرتے "بالکل امی کی طرح۔” یہ سوچ اسے ایکدم اداس کر دیتی۔ گھریلو معاملات کے علاوہ نازیہ بھابھی کا ایک اور پسندید مشغلہ تھا حقوق نسواں کے لیئے کام کرنے والی خواتین کے کردار کی دھجیاں اڑانا۔ ان کے کردار کے بارے میں وہ ایسے ایسے "حقائق” بتاتیں جو بسمہ کے چودہ طبق روشن کر دیتے۔ کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے ناشتے کے بعد سب خواتین ہال میں بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔ سسر اخبار پڑھتے پڑھتے وہیں چھوڑ گئے تھے انہوں نے سامنے پڑا وہ اخبار اٹھا لیا اور سامنے ہی چھپی خبر زور سے پڑھنے لگیں۔
"جب تک ہم عورتیں اپنے حقوق کے لیئے آواز نہیں اٹھائیں گی کوئی ہمیں ہمارا حق نہیں دے گا بلکہ ممکن ہے کہ ہم سے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا جائے”
معروف سماجی رہنما بختاور احمد کا عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پہ تقریب کے شرکاء سے خطاب
انہوں نے یہاں تک خبر پڑھ کر تاسف سے سر ہلایا اور اخبار سائیڈ میں رکھ دیا۔
"کاش کوئی ان عورتوں کا سمجھا سکتا کہ عورت کی اصل بادشاہت تو اس کا گھر اور بچے ہوتے ہیں۔ نہ اپنا گھر سنبھلتا ہے نہ دوسروں کا بسنے دیتی ہیں”
بقول ان کے انہیں اس قسم کی مرد مار جنگجو ٹائپ عورتوں سے سخت چڑ تھی۔
"یہ صرف مردوں کے ساتھ نین مٹکا کرنے کے بہانے ہیں کہ باہر نکل کر اپنا آپ مردوں کو دکھایا جاسکے اور کچھ نہیں” ان کے لہجے میں ایسی خواتین کے لیئے بہت نفرت تھی۔ بسمہ کو اس وقت لگا وہ دادی کی جوانی دیکھ رہی ہے۔ اسے حیرت یہ ہوئی کہ اتنی دور دور رہنے والی دو خواتین جو ایک ہی نسل سے تعلق بھی نہیں رکھتی کہنے کو دو بالکل الگ ادوار کی خواتین ہیں ان کی سوچ اس قدر ایک جیسی ہو سکتی ہے۔
اس گھر میں نازیہ بھابھی کی اگر بنتی تھی تو بڑی نند رفیعہ باجی سے بنتی تھی۔ ان دونوں کی سوچ پسند ناپسند سب ایک جیسا تھا دونوں مل کر بیٹھتیں تو گمراہ نئی نسل، کام چور بہوئیں اور بد کردار تقریریں جھاڑنے والی عورتوں پہ بلا تکان گھنٹوں تبادلۂ خیال کر لیتی تھیں۔
ان دونوں کو ہی نئی دلہنوں کا شوہرسے بات کرنا دن میں اپنے کمرے میں رہنا، شوہر کے ساتھ اکیلے باہر جانا گناہ جیسا معیوب لگتا اور فی الحال ان کے اس نظریے کی زد پہ بسمہ تھی۔ شکر یہ ہوا کہ باسط خود بھی زیادہ گھومنے پھرنے کا شوقین نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے گھر کی خواتین کو باہر لے کر جانا پسند نہیں دوست دیکھتے ہیں اچھا نہیں لگتا۔ اسی کے کہنے پہ بسمہ نے نقاب کے ساتھ حجاب کرنا بھی شروع کردیا تھا۔ مگر ایک بات جو بسمہ نے بہت عجیب نوٹ کی وہ یہ کہ باہر بازار وغیرہ میں گھومتے ہوئے باسط کی توجہ خریداری اور بسمہ کی باتوں سے زیادہ اردگرد کھڑی عورتوں پہ ہوتی اور پھر وہ ان کے آگے بڑھتے ہی ان کی ڈریسنگ، فگر اور بے پردگی پہ کافی کھلے الفاظ میں تنقید کرتا تھا۔ اس کا کہنا ہوتا تھا کہ یہ خواتین خود کو دکھانے ہی تو نکلی ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ میرے گھر کی عورتوں خاص طور پہ بسمہ کے بارے میں کوئی غلط سوچے۔ بسمہ کو حیرت ہوتی کہ کسی کی سوچ پہ کیسے پابندی لگائی جاسکتی تھی اسکول سے لے کر اب تک کم از کم یہ چیز اس نے سمجھ ہی لی تھی کہ لوگ اچھا یا برا کسی معیار کی بنیاد پہ نہیں اپنی پسند یا ناپسند کی بنیاد پہ بناتے ہیں۔ مثال اس کےسامنے ہی تھیں نا جس قسم کی خواتین کو نازیہ بھابھی برا سمجھتی تھیں فائزہ ان کی تعریفیں کرتی تھی۔ جیسی بہوئیں دادی کو ناپسند تھیں امی ان کی تعریفیں کرتی تھیں۔ حد تو یہ تھی کہ گھر کے ہر بندے کا ایک ہی فرقہ ہونے کے باوجود کچھ باتوں کے بارے میں الگ الگ عقیدہ اور نظریہ تھا اور اسی نظریئے کی بنیاد پہ سب نے اپنے اپنے پسندیدگی کے معیار بنائے ہوئے تھے۔ زیبا بھابھی کے مطابق سچا پاکستانی ہونا ہی اصل اور سچے مسلمان کی نشانی تھی اور رفیعہ باجی کے مطابق ہم امت مسلمہ کے طور پہ ایک بڑے خطے کا حصہ ہیں اور پاکستان کو الگ کوئی ریاست سمجھنا امت سے بغاوت ہے۔ مزے کی بات یہ کہ کئی بار دونوں کی جذباتی تقاریر سننے کے باوجود بسمہ نے کبھی کوئی ایک عادت بھی دونوں میں ایسی نوٹ نہیں کی جس سے پاکستان یا امت مسلمہ کا بھلا ہوتا ہو۔ یہ سوچتے ہوئے بسمہ خود بھی سوچتی کہ وہ خود ہی آخر بحیثیت مسلمان یا پاکستانی کے کیا کر رہی ہے۔ اور پھر سوچ کے ہی رہ جاتی کہ وہ کر ہی کیا سکتی ہے۔ اپنی سسرال کے جھمیلوں سے نکلے تو کسی فلاحی کام کا سوچے۔ فائزہ نے ایک دفعہ اسے کہا بھی اس نے نفیس آنٹی کے ساتھ مل کر ایک کچی بستی میں تھوڑے بچوں کو مفت تعلیم دینی شروع کی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ خود بھی ذہنی طور پہ تیار نہیں مگر اپنے فیصلے پہ تصدیق کی مہر لگوانے کے لیئے اس نے باسط سے بھی پوچھ لیا۔ پہلے تو فائزہ کا نام سن کر ہی اس کا منہ تھوڑا بن گیا۔ اسے واقعی سمجھ نہیں آتا تھا کہ لوگ فائزہ اور نفیس آنٹی سے کیوں چڑتے ہیں جبکہ اس نے ہمیشہ انہیں سب کا مددگار ہی پایا تھا۔ وہ دونوں کسی کی بھی مدد کرنے کے لیئے اپنی تمام توانائی صرف کردیتی تھیں۔
پہلے تو وہ خاموشی سے ٹی وہ دیکھتا رہا مگر جب بسمہ سوالیہ انداز میں اسے دیکھتی رہی تو تھوڑا چڑ کے بولا
"یار یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ عزت دار گھرانے کی بہو ہوکر تم اب گلی محلوں میں گندے سندے بچوں کے پیچھے خوار ہوگی؟ ”
"اصل میں فائزہ اتنی اچھی دوست ہے میں خود سے اسے منع کرتی اچھا نہیں لگتا مگر اب یہ کہنا آسان ہوگا نا کہ آپ کو پسند نہیں۔”
"یار تم عورتوں کا اپنا دماغ نہیں ہوتا کیا ہر اچھے برے کا ملبہ شوہر پہ ڈال دیتی ہو ‘انہیں نہیں پسند’ پھر کہا جاتا ہے کہ ہمیں برابر نہیں سمجھتے”
"باسط میں نے یہ کب کہا” منع بسمہ بھی کرنا چاہتی تھی مگر اس کے خیال ان بچوں کے بارے میں ایسے نہیں تھے جس طرح باسط نے کہا وہ بس روز گھر سے کام چھوڑ کے نکلنے میں ہچکچا رہی تھی۔
شروع کے دنوں میں بسمہ کو باسط جتنا خیال رکھنے والا، رومینٹک اور مددگار طبیعت کا لگا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اندازہ ہوتا جارہا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ بڑے بھیا کی طرح ہی اسے بحث بالکل پسند نہیں تھی۔کسی بھی چھوٹی سی بات پہ ناراض ہوکر اچھا خاصا طوفان کھڑا کردیتا تھا۔ کھانے میں چند ہی چیزیں پسند تھیں اور ان میں بھی اس کا معیار بہت انوکھا تھا کوئی بھی پکائے اسے کوئی نا کوئی کمی مل ہی جاتی تھی اور یہ صرف اس کا نہیں سسر سمیت گھر کے تمام مردوں کا مسئلہ تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ بسمہ ان دونوں بھاوجوں سے بہتر ہی پکاتی تھی مگر باسط کے علاوہ باقی دونوں بھائی اپنی اپنی بیگمات کے کھانے خاموشی سے کھا لیتے تھے۔ لیکن اس بات کی کسر ان کے بیٹے پوری کردیتے تھے۔ بڑے بھائی عبدالصمد کے دو بیٹےاور ایک بیٹی تھے بڑا نویں میں تھا بیٹی دوسرے نمبر پہ ساتویں کلاس میں اور دوسرا بیٹا پانچویں میں۔ دوسرے نمبر کے بھائی عبدالرافع کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی ان کا بیٹا بھی اولاد میں سب سے بڑا تھا مگر صمد بھائی کا چھوٹا والا اور رافع بھائی کا بڑاوالا دونوں تقریبا ہم عمر تھے اس لیئے ایک ہی کلاس میں تھے۔ بیٹی دوسری کلاس میں تھی۔ ان تینوں لڑکوں کی فرمائشیں پوری کرنا جان جوکھم کا کام تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہی بچے بسمہ سے ناصرف بہت جلدی اٹیچ ہوگئے تھے بلکہ اس سے ضد بھی کم ہی کرتے تھے۔ سب عموما شام میں اپنی کتابیں لا کر بسمہ کے پاس ہی کام کرتے تھے سوائے سب سے بڑے فہد کے۔ اس کا رویہ بسمہ کو عجیب ہی لگتا تھا جیسے وہ بسمہ کو چاچی کی بجائے صرف لڑکی سمجھتا ہو۔ عموما اس سے کتراتا تھا مگر کئی بار بسمہ نے اسے اپنی طرف عجیب طریقے سے گھورتے ہوئے پایا۔ بسمہ کو بھی احساس تھا کہ اس سے بسمہ کی عمر کا کوئی زیادہ فرق بھی نہیں وہ خود بھی اس سے بے تکلف ہوتے میں جھجھک محسوس کرتی تھی۔ ایک دم کسی اتنے بڑے لڑکے کو باسط کے رشتے کے حوالے سے محرم کے طور پہ برتنا اس کے لیئے بہت مشکل تھا۔ بسمہ اگر اس کی موجودگی میں غیر ارادی طور پہ اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتی یا وہ بسمہ کے اپنے کمرے میں آتے ہی شارٹس بدل کے جینز پہن لیتا تو کوئی نا کوئی ٹوک دیتا کہ چاچی بھتیجے کے رشتے میں یہ تکلف نہیں ہوتے۔ یہ سب وہ احساس تھے جو بسمہ صرف محسوس کر سکتی تھی کسی سے تذکرہ نہیں کرسکتی تھی باسط سے بھی نہیں۔ شادی سے پہلے تک جو اس کا خیال تھا کہ شاید باسط کی صورت میں اسے ایک دوست مل جائے وہ آہستہ آہستہ غلط ثابت ہوتا جارہا تھا۔ شروع شروع کا رومان آہستہ آہستہ صرف جسمانی تعلق تک محدود ہوتا جارہا تھا اور وہ بھی باسط کی مرضی اور شرائط پہ۔ بسمہ تھکی ہوئی ہو نیند پوری نا ہوئی ہو طبیعت خراب ہو اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی۔ ساتھ ہی وہ اپنا دن بھر کا غصہ کام کی پریشانی سب اسی وقت بسمہ پہ اتار دیتا یہ خیال کیئے بغیر کہ بسمہ کو تکلیف ہوگی۔ وہ اپنی غرض پوری کرکے سو جاتا اور بسمہ پوری رات خوف سے جاگتی رہتی اور تکلیف سے سسکتی رہتی۔ اس کے وہ تمام رومانوی تصورات جو اس رشتے سے جڑے تھے ایک ایک کر کے ٹوٹتے جارہے تھے۔ ورنہ منگنی سے شادی کے درمیانی عرصے میں وہ کافی مطمئین ہوگئی تھی کہ باسط اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھے گا اور زبردستی نہیں کرے گا۔
پہلی بار یہ تب ہوا جب آفس میں باسط کی باس سے کسی بات پہ منہ ماری ہوئی، آفس سے بھی جھنجھلایا ہوا آیا تھا، پہلے توکھانے پہ بہت چیخا چلایا کہ تم لوگ گھر میں پورا دن پڑے پڑے کرتی ہی کیا ہو جب ایک کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں پکتا۔ چیخ چلا کرآدھا کھانا چھوڑ کر ہی اوپر چلا گیا۔ بسمہ کام نپٹا کر اوپر پہنچی تو کمرے میں سگریٹ کا دھواں بھرا ہوا تھا۔ باسط کی سانسیں تیز تھیں اور خلاوں میں کہیں گھور رہا تھا۔
"سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔” باسط نے اسی طرح خلا میں گھورتے گھورتے ایک دم کہا اور کافی بےہودہ گالی دی "باس ہے تو سمجھتا ہے ہم اس کے باپ کے نوکر ہیں۔ مفت میں پیسے نہیں دیتا گدھوں کی طرح کام کراتا ہے”
بسمہ نے پہلی بار باسط کے یہ تیور دیکھے تھے وہ ڈر بھی گئی اور پریشان بھی ہوئی۔
"کیا ہوا باسط آفس میں کچھ ہوا کیا؟”
"ہوا بھی ہے تو تم کیا کر لو گی؟ تم عورتوں کو مفت کی روٹیاں توڑنے کو ملتی ہیں بے عزت تو ہم ہوتے ہیں دو دو ٹکوں کی نوکری کے لیئے، نکل کر کمانا پڑے تو عقل ٹھکانے آجائے تم لوگوں کی دو وقت کا کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں پکتا۔” بسمہ ہکا بکا باسط کو دیکھ رہی تھی کہ اس سب میں اس کا کیا قصور ہے۔
بسمہ خاموشی سے دوسری طرف کروٹ لے کرسونے لیٹ گئی اسے پتا ہوتا کہ مسئلہ کیا ہے تو وہ اسے پرسکون کرنے کے لیئے کچھ بولتی بھی مگر باسط کے تیوروں سے لگ رہا تھا وہ کچھ بتائے گا ہی نہیں۔ بسمہ کے اس طرح خاموشی سے لیٹنے پہ وہ اور غصے میں آگیا اس کا بازو کھینچ کر سیدھا کیا
"میں گدھا ہوں جو بکواس کیئے جارہا ہوں مہارانی کو اپنے آرام کی پڑی ہے”
یہ آخری جملہ تھا جو باسط نے بولا۔ پھر صرف بسمہ کی سسکیاں گونجتی رہیں۔ اس رات بسمہ اتنی ڈر گئی اسے لگ رہا تھا وہ سوگئی تو گل بانو کی طرح مر جائے گی۔ فجر کی اذان پہ وہ اٹھی تو اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ اچھے خاصے ٹھنڈے موسم میں وہ ٹھنڈے پانی سے ہی نہا لی وضو کر کے مصلہ بچھایا مگر کھڑے ہوکر یاد ہی نہیں آیا کیا پڑھنا ہے وہ قیام سے ہی سجدے میں چلی گئی اور پتا نہیں کتنی دیر سجدے میں سر رکھے روتی رہی۔
اور پھر یہ سب تقریبا روز کا معمول بن گیا۔ شروع شروع میں بہت تکلیف ہوتی تھی رونا بھی آتا تھا پھر آہستہ آہستہ وہ بے حس لاش ہوگئی۔ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کی حالت سہمی ہوئی چڑیا جیسی ہوگئی تھی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ رنگت کی گلابیاں زردی میں بدل گئیں۔ شادی کو کوئی چھ یا سات مہینے گزر گئے تھے ایک دن فائزہ کی کال آئی تو اس نے بتایا کہ وہ لوگ سب شفٹ ہورہے ہیں آسٹریلیا۔ نفیس آنٹی نے اسکالر شپ اپلائی کی تھی پی ایچ ڈی کے لیئے وہ منظور ہوگئی تھی۔ ساتھ ہی فائزہ کے والد ظفر انکل ان لوگوں کے میٹرک کرنے کے دوران ہی اسٹریلیا گئے تھے جہاں ان کی جاب ہوگئی تھی۔ تو اب پوری فیملی کا وہاں جانا آسان تھا۔ فائزہ کے لیئے بہت خوشی کی بات تھی مگر بسمہ اس خبر سے اور ٹوٹ گئی۔ صرف فائزہ ہی تھی جس سے وہ اپنے دل کی بات کرسکتی تھی۔ اس سے بات کرنے کا موقع کم ہی ملتا تھا مگر ایک ڈھارس تو تھی نا۔
وہ اپنی ذات میں مقید ہوتی جارہی تھی۔ میکے جائے نا جائے کسی کو زیادہ پروا ہی نہیں ہوتی کہ پوچھے وہ کیوں نہیں آئی جب کہ باقی دونوں بہنوں کے کسی ہفتے نا آنے پہ امی خود فون کر کے پوچھتی تھیں اور اگر نا پوچھ پائیں تو اگلی دفعہ آنے سے پہلے وہ جتانے کے لیئے فون کرتیں کہ آپ لوگوں کو ہماری پروا ہی نہیں تو آنے کا کیا فائدہ؟ پھر باری باری امی، ابو، دادی، بڑے بھیا فون کرکر کے مناتے اور خاص دعوت کا اہتمام کیا جاتا۔ بسمہ کو کبھی بھی شکایت کی عادت ہی نہیں تھی تو نا وہ شکایت کرتی تھی ناکسی کو احساس ہوتا تھا کہ اس کی خیریت بھی پوچھنی چاہیئے۔
زندگی یونہی معمول پہ گزر رہی تھی۔ اتنے مہینے گزرنے کے باوجود بچے کے بارے میں پوچھ تاچھ اس لیئے شروع نہیں ہوئی تھی کیونکہ باسط نے ہی صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ دو سال تک کوئی ان سے اس متعلق ناپوچھے اس کی تنخواہ اتنی نہیں کہ بچوں کے خرچے پورے کرسکے۔ وہ کیا چاہتی ہے اس سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
ایک دن معمول سے ہٹ کر دوپہر میں ہی باسط کا فون آگیا
"بسمہ آج شام میں تیار رہنا ایک دوست کے گھر دعوت ہے”
بسمہ کافی حیران ہوئی کیونکہ باسط عموما دوستوں کے گھر اسے نہیں لے کر جاتا تھا یہ سب دوست باہر ہی مل لیتے تھے۔ بس اس کی شادی پہ اس کے کچھ دوست اپنی بیگمات کو لائے تھی اور ایک آدھ ہی کے گھر شادی کے بعد دعوت ہوئی تھی۔ مگر یہ شاید وہ دوست نہیں تھا۔ شام کو آفس سے آیا تو موڈ کافی خوشگوار تھا تیارہوتے ہوتے خود ہی بتاتا جارہا تھا
” احمد اور میں نے ایک ہی اسکول سے میٹرک کیا تھا پھر یہ لوگ دوسرے محلے میں شفٹ ہوگئے تھے۔ کالج تک رابطہ تھا پھر اس کی جاب لاہور میں ہوگئی تھی باقی گھر والے تو یہیں ہوتے ہیں۔ میری آج آفس میں ملاقات ہوئی تو پتا چلا اس کی بھی شادی ہوگئی دو سال پہلے،اتنا اصرار کر کے دعوت پہ بلایا ہے میں منع ہی نہیں کرپایا۔ ویسے بھی بہت اچھی فیملی ہے ہمارا کافی آنا جانا تھا ایک دوسرے کے گھر۔ امی صرف اسی کو آنے دیتی تھیں گھر میں اتنا شریف لڑکا ہے۔ بلکہ یہ کیا اس کے سب گھر والے ہی بہت شریف اور مہذب ہیں تم ملو گی تو تمہیں بھی اچھا لگے گا۔” جتنی تفصیل سے باسط سب بتا رہا تھا اسی سے لگ رہا تھا کہ احمد اس کا کافی قریبی دوست ہے اور وہ اس سے مل کر بہت خوش بھی ہے۔
باسط کھانے کے ٹائم سے کافی پہلے ہی پہنچ گیا احمد کے گھر۔ سب سے پہلے احمد کی امی سے ملاقات ہوئی انہیں دیکھ کر بسمہ کو لگا انہیں کہیں دیکھا ہے کچھ عجیب سا ناخوشگوار سا احساس ہوا۔ انہوں نے بہت محبت سے لاونج میں لے جاکر بٹھایا احمد کی بیوی اپنی چند ماہ کے بیٹے کو بھی لائی وہ بھی کافی ملنسار لڑکی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد احمد بھی آگیا اسے دیکھ کر بسمہ کچھ لمحے کے لیئے شاک میں رہ گئی بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے اسلم 26 یا27 سال کا ہوگیا ہو۔ اسے اندازہ ہوا کہ احمد کی امی میں بھی انہی نقوش کی جھلک تھی۔ ان کے بہت ملنسار رویئے کے باوجود بسمہ بہت بے چین ہوگئی۔ احمد کی بیوی ہی باتیں کیئے جارہی تھی بسمہ بس ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی۔
انہیں بیٹھے آدھا گھنٹا ہوا ہوگا کہ پیچھے سے کافی مانوس آواز آئی
"ارے باسط بھائی کہاں سے برآمد ہوگئے اتنے دن بعد”
آواز تھی یا کوئی بم بسمہ نے مڑ کے پیچھے دیکھا لاونج کے دروازے سے اسلم اندر آرہا تھا۔

 

ابصار فاطمہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
افسانے کی حقیقی لڑکی از ابصار فاطمہ سے اقتباس