آپ کا سلامابصار فاطمہاردو افسانےاردو تحاریر

میڈم نفیس کی کہانی

افسانے کی حقیقی لڑکی از ابصار فاطمہ سے اقتباس

میں سیدہ نفیس صفدر ہوں۔ مگر مسز سید صفدر رضوی نہیں۔ ہمیشہ کئی جگہ لوگ باگ یہی گڑبڑ کرتے ہیں کہ جب میں شادی شدہ ہوں توصفدر میرے شوہر کا نام ہوگا۔ مگر یہ میرے والد کا نام ہے۔ مگر لوگ مجھے جانتے میڈم نفیس کے نام سے ہیں، میرے نام سے، نا میرے والد کے نام سے، نا میرے شوہر کے نام سے۔
میں ایک گورنمنٹ کالج میں زولوجی کی لیکچرر ہوں۔ تعلیم ایم فل تک ہے۔ اور آگے پڑھنے کے شوق نے اس عمر تک پیچھا نہیں چھوڑا جب اولاد جوان ہورہی ہے۔ اسی لیئے پی ایچ ڈی کے لیئے اسٹریلیا میں اپلائی کیا تھا۔ اور اب چند ہی دنوں میں، میں مستقل تو نہیں، مگر ایک لمبے عرصے کے لیئے پاکستان سے چلی جاوں گی۔
میری شخصیت خواتین میں کافی متنازعہ ہے۔ عموما خواتین میرے منہ پہ میری گرویدہ ہونے کے دعوے کرتی ہیں مگر میرے پیٹھ پیچھے انہیں میرے طور اطوار ہضم نہیں ہوتے۔ سب سے پہلے انہیں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب میں سید ہوں تو پردہ کیوں نہیں کرتی؟ جبکہ میرا لباس شرعی پردے کی تمام حدود کو پورا کرتا ہے۔ دوسرا اعتراض پہلے اعتراض کے حوالے سے دیکھا جائے تو مضحکہ خیز ہے وہ یہ کہ جب میں عورت ہوں تو میک اپ کیوں نہیں کرتی؟ زیور کیوں نہیں پہنتی؟ انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ میں انسان ہوں۔ بھلے عورت ہوں مگر کوئی آرائشی "چیز” نہیں۔ جسے اس لیئے سجنا پڑے کے دوسرے دیکھیں تو تعریف کریں۔ یا میرے اسٹیٹس کا اندازہ لگا سکیں۔ کیوں؟ اگر کسی کو لگے گا کہ میں خوبصورت ہوں یا میرے پاس بہت پیسے ہیں تو وہ مجھے دو زیادہ روٹیاں دے گا کھانے کو؟ چلیں فضول بحث کو ایک طرف کرتے ہیں میں اپنی کہانی سنانے جارہی تھی۔
میرا تعلق ایک روایتی سید گھرانے سے ہے جہاں خواتین اور پردہ لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ اور ان کے لیئے پردے کا مطلب خواتین مکمل طور پہ اپنی زندگی کے لیئے دوسروں پہ انحصار کریں۔ احترام کے نام پہ ہم سید خواتین دوسری ذات کی خواتین کی بے دھڑک بے عزتی کرتی ہیں انہیں خود سے کمتر سمجھتی ہیں۔ نجیب الطرفین سید ہونے کی وجہ سے شادی بھی سادات میں ہی ہوتی ہے اور یہ اصول صرف لڑکی کے لیئے ہے۔ بہرحال 10 سال کی عمر تک میں نے گھر سے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں تھی۔ اس کے بعد بھی باہر کی دنیا تو کیا دیکھتی ایک گھر کی دہلیز کے بعد اگلی چیز اگلے گھر کی دہلیز دیکھی. یہ وہی اگلا گھر ہے جس کے ڈراوے خواتین اپنی بیٹیوں کو دیتی ہیں کہ اگلے گھر جاو گی تو کیا کرو گی۔ یعنی سسرال۔ جی 10 سال کی عمر میں میری شادی کردی گئی تھی۔ یہاں سے میری زندگی میں انقلاب آیا۔ میری شادی میرے ایک کزن سے کی گئی تھی جو کہ مجھ سے عمر میں 15 سال بڑے تھے۔ یعنی اس وقت 25 سال کے تھے۔ سید محمد متقی جیسا مرد میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ نکاح کے بعد پہلی ملاقات میں انہوں نے مجھے کتابیں لا کر دیں۔ گھر والوں کو شرط بتا دی کہ رخصتی، کم از کم میرے آٹھویں پاس کرنے کے بعد ہوگی۔ بڑی لے دے ہوئی اس فیصلے پر مگر وہ خاندان کے گدی نشین کے بیٹے تھے۔ تو کسی اور کا اثر و رسوخ چل ہی نہیں پایا۔ والد صاحب پچھتاتے کہ لڑکی کو جلد سے جلد رخصت کرنے کا ارادہ تھا اور اب پختہ عمر تک گھر ہی بٹھانا پڑے گا۔ پانچویں تک کی تعلیم میں نے دو سال میں ہی گھر میں مکمل کرلی پہلی بار کتاب ہاتھ میں لے کر مجھے احساس ہوا کہ یہی میرا پہلا عشق ہے۔ اس سے پہلے تک میں ایک دیہی علاقے کی عام سی لڑکی تھی۔ کتاب کی دنیا میرے لیئے جادو نگری تھی۔ میری اصل دنیا سے کہیں زیادہ الگ اور زیادہ منطقی۔ میں جتنا پڑھتی جارہی تھی مجھے احساس ہوتا جارہا تھا کہ کتاب کی باتیں دراصل زندگی سے بہت مختلف ضرور ہیں مگر ان کی مدد سے زندگی مزید آسان ہی ہوتی ہے مشکل نہیں ۔ میرے آٹھویں پاس کرتے ہی دوبارہ میری رخصتی کی بات نکالی گئی۔ مگر میں نے متقی کو خط لکھ کر درخواست کی کہ میں مزید پڑھنا چاہتی ہوں۔ مجھے نہیں پتا کہ انہوں نے کیسے سب سنبھالا مگر معاملہ مزید میرے پرائیویٹ انٹر کرنے تک ٹل گیا۔ اب کے متقی نے مجھے پہلی بار اکیلے میں بلایا۔ میں نے پہلی بار ایک بالغ لڑکی کی نظر سے انہیں دیکھا۔ تینتیس سال کے مضبوط مرد جو دیکھنے میں کوئی لحیم شہیم نہیں تھے نا ہی مردانہ وجاہت کا کوئی اعلی پیکر مگر ان کی شخصیت کے اعتماد، ذہانت اور رعب نے مجھے پہلی بار میں متاثر کیا۔ انہوں نے مجھے ملاقات کی وجہ بتائی جسے سن کر میں ششدر رہ گئی۔ بقول ان کے جس عمر میں ان کا اور میرا نکاح ہوا اس وقت ایک بچے کو یہ تک نہیں پتا ہوتا کہ بھائی اور شوہر میں فرق کیا ہوتا ہے۔ شرعی اعتبار سے ولی کی رضامندی ایک ضروری عنصر ہے مگر نکاح کی جائز ہونے میں سب سے اہم فریقین کی رضامندی ہے۔ دس سال کی ایک بچی منطقی طور پہ شادی کی تمام ذمہ داریوں کو سمجھ ہی نہیں سکتی۔ اور ان کے مطابق وہ کوئی ناجائز رشتہ نہیں بنانا چاہتے تھے جس میں دوسرے فریق کو اس کی لا علمی کی بنیاد پہ شامل کیا گیا ہو۔
"آپ کو شاید اندازہ نا ہو کہ مجھ پہ اس عرصے میں کتنا دباو تھا مگر میں کسی لڑکی پہ یہ ظلم کر کے خود کو گناہ گار نہیں کرسکتا تھا کہ اسے اس کی رائے کے استعمال کا مکمل حق دیئے بغیر ازداوجی رشتہ نبھانے کے لیئے مجبور کروں۔ یہ واضح طور پہ گناہ ہے۔ آپ اب ناصرف بالغ ہیں بلکہ تعلیم یافتہ ہیں۔ اگر آپ اس رشتے کو جاری رکھنا چاہتی ہیں تو بھی یہ آپ کی مرضی کے مطابق ہوگا اور اگر نہیں رکھنا چاہتیں تو یہ آپ کا شرعی حق ہے کوئی کسی بھی قسم کے اخلاقی طعنوں کی آڑ میں آپ سے یہ حق نہیں چھین سکتا۔”
متقی نے یہ کہہ کر اپنی بات کا اختتام کردیا۔ میں انہیں ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میں نے کوئی خلائی مخلوق دیکھ لی ہو۔ آپ کو اگر میرے اردگرد کے ماحول کا اندازہ ہو تو آپ کو بھی یقینا احساس ہوگیا ہوگا کہ ہمارے لیئے خلائی مخلوق کا آنا اتنا ناممکن نہیں جتنا ایسی سوچ کے حامل ایک مرد کا وجود۔ ایسے مرد کی ہمراہی کوئی بالکل بے دماغ عورت ہی شاید رد کرے۔ تو میں نے بھی وہی کیا جو ایک باشعور لڑکی کو کرنا چاہیئے۔ کچھ ہی دن بعد میری باقاعدہ رخصتی ہوگئی ورنہ سسرال کے گھر میں میرا آنا صرف تقاریب کی حد تک تھا۔
پہلی رات متقی کمرے میں آئے تو میرا دل ایک عام سی لڑکی کی طرح ہی شدید دھڑک رہا تھا۔ مگر ان کے بات شروع کرنے کے بعد ایک دم بہت پرسکون ہوگئی۔ ان کی بات چیت اور رویہ بہت دوستانہ تھا۔ عمومی سی بات چیت ہوئی اور ہم سوگئے نا انہوں نے کوئی پیش قدمی کی نا مجھے یہ عجیب لگا۔ میں نے کئی بار سوچا اور مجھے عجیب یہ لگتا کہ انتہائی شدید عقیدت کے باوجود مجھے ان میں ایک شوہر کے حوالے سے کشش محسوس نہیں ہوئی۔ ان سے مشورہ کرکے میں نے دوبارہ فرسٹ ائیر سائنس میں ایڈمیشن لے لیا۔ ہم گھنٹوں سائنس اور فلسفے پہ گفتگو کرتے مگر اس کے بعد بس۔ وقت گزرتا گیا گھر میں سوال اٹھنے لگے کہ اب تک کوئی خوش خبری کیوں نہیں ہے۔ متقی نے بہت خاموشی سے انتظام کیا اور ہم شہر میں شفٹ ہوگئے۔ انٹر کے بعد میں نے بی ایس سی زولوجی میں ایڈمیشن لے لیا۔
ایک دن رات کھانے کے بعد انہوں نے مجھے سٹنگ روم میں ہی روک لیا کہ کوئی اہم بات کرنی ہے۔
"نفیس ہماری شادی کو تین سال ہونے والے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ آج ہم اس موضوع پہ بات کرلیں تو بہتر ہے۔” مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ شاید ہمارے ازداوجی تعلقات کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں اور میرا اندازہ درست نکلا۔
"کیا تم نے کبھی مجھ میں ایک شوہر کے حوالے سے کشش محسوس کی” بہت واضح، مختصر اور جامع سوال تھا۔ اس کا جواب بھی بہت جامع ہوسکتا تھا مگر کیسے؟ میں ان کے اتنے احسانات تلے ہونے کے بعد کیسے کہہ سکتی تھی کہ مجھے ان میں کبھی کشش محسوس نہیں ہوئی۔ میری خاموشی دیکھ کر وہی آگے بولے۔
"دیکھو اتنا وقت اس لیئے لگ گیا کیونکہ ہم دونوں کو اس سوال کا جواب پتا ہے مگر ہم دونوں کو واضح طور پہ یہ ماننے میں اخلاقیات آڑے آرہی ہے۔ نا میں نے پیش قدمی کی نا تم نے تقاضا کیا۔ یعنی ہم دونوں کی کیفیت ایک ہے۔ اور یہ بات اب واضح ہوجائے تو بہتر ہے۔ مجھے پتا ہے کہ میں ایک نارمل مرد ہوں اور تم ایک نارمل عورت۔ ہمیں ایکدوسرے سے کوئی اختلاف کوئی لڑائی نہیں مگر اس کے باوجود ہم دونوں ایک دوسرے میں کشش محسوس نہیں کرتے۔”
وہ کچھ لحظہ رکے
"پہلے تم سے یہ بات نا کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں چاہتا تھا تم سائنسی اعتبار سے اس معاملے کو سمجھ سکو۔ ہم ہر کسی سے محبت کر سکتے ہیں، احترام کر سکتے ہیں مگر ہر کسی سے جسمانی کشش محسوس نہیں کرسکتے۔”
میں نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلا دیا۔ یہ مجھے بھی اچھی طرح پتا تھا کہ ہم اسی میں کشش محسوس کرتے ہیں جس سے صحت مند نسل آگے بڑھ سکے۔
"دیکھو نفیس میں پہلے بھی اس رشتے کے حق میں نہیں تھا، ہمارے خاندان میں جینیاتی بیماریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ تمہیں پتا ہے میری اپنی دو بہینیں ذہنی مسائل کا شکار ہیں اس کے باوجود ان کی شادی خاندان میں ہی کی گئی۔ اب وہ دونوں اتنی صلاحیت نا ہونے کے باوجود اپنے مکمل ذہنی معذور بچوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دیکھو معذور بچے برے نہیں ہوتے مگر جانتے بوجھتے انہیں ایسی زندگی دینا ظلم ہے۔ ہمیں ایک دوسرے میں قدرتی کشش ہوتی تو بات الگ تھی۔ مگر اس کا نا ہونا مجھے یہ سوچنے پہ مجبور کر رہا ہے کہ یقینا اس کا کہیں تو تعلق اس فیکٹ سے ہے کہ ہم ایک صحت مند نسل دنیا میں نہیں لاسکتے۔”
یا تو ان کی بات بہت جامع تھی یا شاید میری اپنی سائنس کے متعلق معلومات نے یہ باتیں سمجھنا آسان کردیا تھا۔ مگر ان کی دلیل حقیقت پہ مبنی تھی۔
"تو آپ دوسری شادی کریں گے؟”
مجھے اور کچھ سمجھ نہیں آیا پوچھنا
"ہمم یہیں آکر مسئلہ اٹک رہا ہے۔ میں تو دوسری شادی کر کے اپنی زندگی سیٹل کر لوں گا تم کیا ہمیشہ اس کاغذی رشتے کی قید میں رہو گی؟ اگر میں طلاق دیتا بھی ہوں تو تمہیں واپس اسی ماحول میں واپس جانا پڑ جائے گا جہاں ناصرف تمہاری تعلیم چھڑوادی جائے گی بلکہ دوبارہ تمہاری رائے کا احترام کیئے بغیر کسی سے شادی کردی جائے گی۔ اگر تم سے پوچھ کے رشتہ طے کیا جانا ہوتا تو میں کب کا یہ رشتہ ختم کرچکا ہوتا۔”
"ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ فی الحال صرف آپ شادی کرلیں۔ میں تعلیم مکمل کرتی ہوں تب تک کوئی نا کوئی طریقہ سمجھ آجائے گا۔”
پھر یہی طے پایا۔ میں نے قانونی طور پہ انہیں دوسری شادی کی اجازت دے دی دونوں کی گھر کی طرف سے اعتراضات ہوئے کیونکہ لڑکی کسی اور خاندان کی تھی۔ اور متقی سے اس کی ملاقات دونوں کے جابز کے سلسلے میں ہوتی تھی۔ تعلیم یافتہ اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی اور اس کے گھر والے بھی اس کی رائے کا احترام کرتے تھے۔
مجھے ہمیشہ متقی کی اس بات نے متاثر کیا کہ وہ بغیر کوئی کشیدگی بڑھائے اپنے دلائل سے روایتی اعتراضات کرنے والوں کو مطمئین کر دیتے تھے۔ وہ اپنی زندگی کے فیصلوں میں دوسروں کی رائے کا احترام ضرور کرتے مگر انہیں اپنی زندگی میں بگاڑ کی اجازت نہیں دیتے اور بہت معاملہ فہمی کے ساتھ انہیں مطمئین کر کے وہی کرتے جو ان کا فیصلہ ہوتا اگر کبھی دوسرے کا مشورہ قابل قبول اور مثبت ہوتا تو اسے مانتے بھی ضرور تھے۔
یہ بتانے کا مقصد یہ کہ دوسری شادی کسی اور خاندان میں کرنے کی اجازت بھی انہوں نے لے لی اور فائزہ سے ان کی شادی کے بعد اسے بھی خاندان میں وہی احترام ملا جو مجھے متقی کی خاندانی بیوی ہونے کی حیثیت سے ملتا تھا۔
اس کے بعد کچھ ہی عرصے میں سب کچھ بہت تیزی سے بدلا۔ فائزہ مجھ سے کافی بڑی ہی تھی مگر میری بہترین دوست بن گئی۔ وہ تعلیم کے معاملے میں میری بہت مدد کرتی تھی۔ میں نے اس سے اعتماد، اپنے آپ سے محبت کرنا اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا سیکھا۔ ان کی شادی کے تیسرے مہینے ہی فائزہ نے ایک نئی زندگی کی خبر سنادی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا میرا ماسٹرز شروع ہوگیا اور ہمارے گھر میں ایک پیاری سی گڑیا کا اضافہ ہوگیا۔ سیدہ تطہیر متقی۔ وہ بالکل فائزہ جیسی ہی تھی۔ مگر پھر وہ ہوا جس کا کسی نے شاید سوچا بھی نہیں تھا۔ تطہیر 4 ماہ کی تھی جب متقی اور فائزہ اسے میرے پاس چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لیئے بازار گئے مگر وہیں کسی نے ان پہ فائرنگ کردی۔ یہ کبھی پتا نہیں چل سکا کہ فائرنگ کرنے والا کون تھا مگر ڈھکی چھپی بات یہ سننے میں آئی کہ انہیں انہی کے چھوٹے بھائی نے مروایا تھا تاکہ والد کی موت کے بعد گدی نشینی اسے مل سکے وہ عمومااس رائے کا اظہار کرتا رہتا کہ متقی اگر گدی نشین بن جاتے تو وہ تمام روایات کو ختم کردیتے اور سید گھرانے کا نام مٹی میں ملا دیتے۔ میرے پاس دو راستے تھے ایک تو یہ کہ میں واپس گھر والوں کے پاس چلی جاوں اور دوسرا یہ کہ میں متقی کی دی ہوئی زندگی جئیوں۔ اپنی زندگی جئیوں۔ میں نے وہی کیا جو مجھے بہترلگا۔ میں نے دو سال اپنی تعلیم کا گیپ دیا اور تطہیر کی پرورش کابہانا کر کے اسی گھر میں رکی رہی۔ میں نے بہت سوچا، میں ایک باحیا روایتی عورت کی طرح متقی کے نام اور تطہیر کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزار سکتی تھی ۔ مگر کیوں؟ معاشرے میں ایک ایسا امیج بنانے کے لیئے میں ایسا فیصلہ کیوں کروں جس سے مجھے اور تطہیر کو کوئی فائدہ نا ہو۔ جب کہ قانون اور شرعیت کے مطابق میرے پاس ایک بہتر حل موجود تھا۔ لہٰذامیں نے متقی کا انداز اپنایا بہرحال میں عورت ہوں تو مجھے زیادہ مشکل کا سامنا ہوا مگر میں گھروالوں کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ماسٹرز کے آخری سال میری ملاقات ظفر منصور سے ہوئی اور ہمیں ایک دوسرے میں وہی کشش محسوس ہوئی جس کی مجھے اب تک کمی لگتی تھی۔ فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت اس لیئے نہیں لگا کیونکہ عموما فیصلے لوگ کیا کہیں گے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوتے ہیں۔ جلد ہی میری شادی ظفر منصور سے ہوگئی۔ اسے بہتر انداز میں کہوں تو ہم دونوں نے شادی کرلی۔ شادی کو موسمی بدلاو کی طرح نہیں ہونا چاہیئے کہ ہوگئی اور اس پہ کرنے والوں کا کوئی بس نا ہو۔
ایک بہت عجیب بات یہ ہوئی کہ کئی بار میں تطہیر کو فائزہ کہہ جاتی۔ اس کے قریب ہونے سے مجھے فائزہ کے پاس ہونے کا احساس ہوتا۔ پھر میں نے بہت سوچ کر تطہیر کا نام فائزہ ہی رکھ دیا۔ اسے ہر بار فائزہ کہہ کر بلانا مجھے اندرونی اعتماد دیتا ہے۔ فائزہ میں متقی کی ذہانت اور اپنی ماں کا اعتماد پیدائشی ہے۔ اسے پتا ہے کہ وہ میری سگی بیٹی نہیں کیونکہ کسی کی سوتیلی بیٹی ہونا کوئی جرم نہیں اسے اس بات پہ بھی فخر ہے کہ وہ متقی اور فائزہ کی بیٹی ہے اور اس پہ بھی کہ میں اور ظفر اس کے قانونی والدین ہیں۔
فائزہ کی اپنی چھوٹے تین بہن بھائیوں سے بہت بنتی ہے انہیں ہوم ورک کرانا نئی چیزیں سیکھنے میں مدد کرنا فائزہ کا پسندیدہ مشغلہ ہیں۔ مجھے پتا ہے وہ اور ارمغان میں وہی قدرتی کشش ہے اور یہی سب سمجھتے ہوئے میں نے فائزہ کو ہر لحاظ سے ذہنی طور پہ تیار کردیا۔ اسے ارمغان سے بات کرنے کے لیئے ہم سے جھوٹ نہیں بولنا پڑتا۔ ارمغان ہمارے ساتھ غریب بچوں کو پڑھانے کے دوران بھی شامل تھا وہ دونوں ہی اتنے سمجھدار ہیں کہ اپنی پسندیدگی کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کووقتی تسکین کے لیئے استعمال کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی شخصیت کو نکھارنے میں مدد کر رہے ہیں وہ دونوں ہر مثبت کام میں ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ان کے اس تعلق میں کچھ عرصے کی دوری آئے گی مگر ہمیں پتا ہے کہ ہم واپس یہیں آنا ہے کیونکہ ہماری صلاحیتوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہمارے اپنے لوگوں کو ہے۔

 

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button