- Advertisement -

احترام کا رشتہ

افسانے کی حقیقی لڑکی از ابصار فاطمہ سے اقتباس

اسلم کو دیکھ کر بسمہ کا دل بیٹھ گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ زندگی میں دوبارہ اس کا اسلم سے سامنا ہوگا اور وہ بھی اس طرح۔ بسمہ کے ہاتھ پاوں ایک دم ٹھنڈے پڑ گئے۔ اسلم آگے آیا اس نے ایک نظر بسمہ پہ ڈالی صرف ایک لمحے کے لیئے اس کی نظروں میں شناسائی کی جھلک آئی جو شاید صرف بسمہ کو ہی محسوس ہوئی ہو پھر وہ باسط کی طرف متوجہ ہوگیا۔
باسط بہت گرم جوشی سے اسلم سے ملا۔
اور بھئی اسلم کیا ہورہا ہے آج کل؟ احمد کیا گیا شہر سے تم نے بھی دعا سلام چھوڑ دی ورنہ تو ہر وقت باسط بھائی باسط بھائی لگائے رکھتے تھے”۔ باسط نے ہلکے پھلکے انداز میں شکوہ بھی کیا۔
"بس باسط بھائی تب تو چھوٹا اتنا تھا میرے اپنے پاس تو موبائل تھا ہی نہیں۔ پھر آپ کا نمبر نہیں مل پایا۔ بھائی کے پاس جو نمبر تھا وہ بھی شاید آپ نے بدل لیا تھا۔”
"ہاں اصل میں آفس کی طرف سے دوسرا نمبر مل گیا تھا کچھ عرصے تو وہ سم بند ہی رہی پھر منگنی کے بعد بسمہ کو دے دیا وہ نمبر بس تب سے اسی کے پاس ہے۔”
"واہ آپ نے بھی شادی کرلی۔ مبارک ہو بہت۔ نا بلانے کا شکوہ ہم کریں گے نہیں کیونکہ ہم بھی نہیں بلا پائے آپ کو بھائی کی شادی میں۔”
"ہاں اچھا یاد دلایا اس پہ تو ابھی میری احمد سے لڑائی رہتی ہے۔ شادی کر کے بیٹھ گیا بتانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ تم بتاو آج کل کیا کر رہے ہو؟”
"بی ای میں ایڈمیشن کی تیاری کر رہا ہوں۔ دعا کریں ہوجائے”
"ارے تم نے انٹر کرلیا۔ لو بھلا بتاو ہمارے سامنے کے بچے کیسے بڑے ہوجاتے ہیں پتا بھی نہیں چلتا۔”
اس جملے پہ اسلم اور بسمہ نے غیر ارادی طور پہ ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر شاید اسلم ہی کو احساس ہوا۔
” باسط بھائی تعارف تو کرا دیں”
"ارے ہاں سوری یار یہ میری وائف ہیں تمہاری بھابھی، بسمہ۔ اور بسمہ یہ احمد کا سب سے چھوٹا بھائی اسلم، بلکہ سمجھو میرے لیئے بھی بھائیوں جیسا ہی ہے تمہاری دیور کی کمی پوری کردے گا۔”
بسمہ بہ مشکل مسکرائی۔
اسلم ایک دو باتیں کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا کھانا کہنے کو خوشگوار ماحول میں کھایا گیا مگر بسمہ کی حالت ایسی تھی کہ اس سے کچھ بھی نہیں کھایا گیا۔ احمد کی بیوی اصرار ہی کرتی رہی۔ خدا خدا کر کے واپسی کا وقت آیا۔ اور تب تک بسمہ کا دم سولی پہ اٹکا رہا کہ کہیں سے بھی کوئی ایسی بات نا نکل آئے جس سے پتا چل جائے کہ اسلم اور بسمہ ایک ہی اسکول میں پڑھے ہیں۔ اس نے گھر آکر سکون کا سانس لیا۔ اس نے دل میں پکا عہد کرلیا کہ اب دوبارہ کبھی اسلم کے گھر نہیں جائے گی چاہے کوئی بھی جھوٹ بولنا پڑے۔
جیسے جیسے دن گزرتے جارہے تھے بسمہ اور باسط اور دور ہورہے تھے۔ باسط اب صرف بہت ضرورت کی بات ہی کرتا بسمہ سے۔ اس کا ماننا تھا کہ بسمہ میں اتنی عقل ہی نہیں کہ اس سے بندہ کوئی بات کر سکے۔ ہاں وہ اور نازیہ بھابھی شام میں لمبی لمبی گفتگو کیا کرتے تھے جس میں کئی بار وہ جتاتیں کہ تمہاری بیوی ابھی ناتجربہ کار ہے اس لیئے اسے نہیں پتا۔ اور کچھ لاپرواہ بھی۔ میں جب تک نا بتاوں وہ کوئی کام ڈھنگ سے کر ہی نہیں پاتی۔ ساتھ ہی ان دونوں کے آپس میں عجیب قسم کے مذاق بھی چلتے رہتے جو بہت دفعہ کافی معیوب قسم کے ہوتے تھے۔ بسمہ کا شدت سے دل چاہتا کہ امی نے اسے کم از کم اپنے حق کی بات کہنے کی تو عادت ڈالی ہوتی۔پہلے تو فائزہ اسے ہمیشہ ایسے موقعوں پہ اچھی طرح جھاڑتی تھی کہ جب کسی کو جواب دینے کی باری آتی ہے تو تم کوما میں چلی جاتی ہو۔ صرف نازیہ بھابھی ہی کیا اس کا یہ رویہ دیکھ کر اب کوئی بھی اسے کچھ بھی بول جاتا اور وہ کھڑی منہ دیکھتی رہ جاتی۔ کیا ساس، کیا سسر، سنیہ دونوں جیٹھ زیبا بھابھی نازیہ بھابھی رفیعہ باجی ہر کوئی اس کی کم عقلی پہ کوئی نا کوئی کمنٹ ضرور کرتا اور وہ چپ چاپ سنے جاتی۔
ایک دن وہی معمول کے مطابق وہ سالن پکا رہی تھی کہ نازیہ بھابھی کچن میں آئیں
"لو تم اب سالن پکا رہی ہو۔ بسمہ اتنی سستی اچھی نہیں ہوتی میری جان۔ میں تمہاری ہی بھلائی کے لیئے ٹوکتی ہوں۔ اب دیکھو رات کے کھانے میں صرف ایک گھنٹہ رہ گیا ہے۔ کب سالن پکے گا کب روٹیاں پکیں گی۔ پھر باسط کو غصہ آتا ہے تو تمہارا منہ بن جاتا ہے۔ بھئی دیکھو مرد تو ہوتا ہی غصہ کا تیز ہے عورت کو ہی خیال کرنا پڑتا ہے کہ اسے غصہ نا آئے۔”
"اور کیا جیسے بڑی چاچی رکھتی ہیں خیال روز بازار سے ناشتہ منگوا کر”
پتا نہیں کب فہد کچن میں آگیا تھا۔
"فہد میرے تو تم منہ لگو ہی مت ،تم جیسے جیسے بڑے ہورہے ہو ساری تمیز ادب بھولتے جارہے ہو۔”
"بڑی چاچی ادب کروانے کے لیئے بندے میں کوئی ایک تو ایسی خصوصیت ہو آپ کوئی ایک بتا دیں” نازیہ غصے میں کچن سے ہی نکل گئی
"فہد وہ بڑی ہیں آپ سے اس طرح نہیں کہا کریں”
بسمہ نے ایک بڑے کی حیثیت سے اسے ٹوکا
"چھوٹی چاچی ان کی عادت ہے جو ان کو جواب نہیں دیتا یہ اس کا جینا مشکل کردیتی ہیں۔ شروع شروع میں سنیہ پھپھو کو بھی بہت تنگ کیا پھر امی نے سنیہ پھپھو کوسمجھایا تو کہیں جاکر ان کی جان چھوٹی۔”
"مگر میری عادت ہی نہیں ایسی میں کیا کروں”
"عادت نہیں ہے تو بدل لیں۔ اپنا میاں ان سے سنبھلتا نہیں آپ کے میاں کی فکر میں رہتی ہیں۔ اور آپ اتنی سادہ ہیں کے سامنے سب ہوتا دیکھ کر انجان بنی ہوئی ہیں۔”
بسمہ کو شدید تذلیل کا احساس ہوا کہ اب اسکول کا بچہ بھی اسے کم عقلی کا طعنہ دے گا۔”
"کیا مطلب، کیا ہوتا ہے سامنے”اس کا لہجہ تھوڑا تیز ہوگیا۔
"چھوٹی چاچی آپ بہت معصوم ہیں۔ مگر بڑی چاچی کو معصوم مت سمجیئے گا۔ یہ جو چاچو کے لیئے بھائی ہے بھائی ہے کا شور کرتی ہیں ایسا کچھ بھی نہیں”
"فہد بری بات ہے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے وہ دونوں تمہارے بڑے ہیں۔”
"یہ تو بڑوں کو سوچنا چاہیئے کہ وہ کر کیا رہے ہیں بچے تو دیکھیں گے۔ اور ویسے بھی میں اتنا بھی بچہ نہیں ہوں جتنا گھر والے سمجھتے ہیں۔ شاید آپ سے ایک آدھ سال ہی چھوٹا ہوں گا۔” اس نے ایک دم ہی بسمہ کا ہاتھ پکڑ لیا
” چاچی سب آپ سے ایسا سلوک کرتے ہیں مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ مگر میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کو جب میری ضرورت ہو مجھے بتایئے گا۔”
کہنے کو اس نے گھر والوں کے رویئے کے حوالے سے کہا مگر کچھ تو تھا اس کے لہجے میں جس سے بسمہ کو لگا وہ کسی اور ضرورت کی بات کر رہا ہے۔ اس وقت اسے فہد، اسلم جیسا لگا۔ اس نے ایک دم اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
"فہد آپ فکر نا کریں مجھے کوئی مسئلہ ہوگا میں باسط سے ڈسکس کر لوں گی آپ پریشان نا ہوں۔”
"چاچی باسط چاچو آپ سے بات ہی کہاں کرتے ہیں آپ کیوں سمجھتی ہیں کہ باقی سب اندھے ہیں۔ خیر آپ کی مرضی ہے ورنہ آپ جب چاہیں میں آپ کی مدد کوتیار ہوں۔”
بسمہ کو احساس ہوہی گیا کہ وہ واقعی بچہ نہیں ہے کافی نپے تلے انداز میں اپنے مقصد کی بات کرگیا۔ بسمہ اندر تک کانپ گئی۔ وہ تو سمجھتی تھی یہ اس کا گھر ہے یہاں وہ محفوظ ہے۔ ایک دم اسے اپنی ہی حالت پہ ہنسی آئی۔ روز رات میں باسط اس "تحفظ” کا احساس کافی مناسب طریقے سے دلاتا ہی تھا۔ اور عموما ہی بسمہ موازنہ کرتی دنیا والوں کے لیئے اسلم کا ہاتھ پکڑنا تو غلط تھا مگر اس ظلم پہ کوئی باسط کو کچھ نہیں بولے گا جیسے بسمہ کی جذباتی اور جسمانی تکلیف کی کوئی حیثیت ہی نا ہو۔ اب تو یہ حال تھا کہ بسمہ کے سرد رویئے سے جھنجھلا کر وہ اسے مارنے بھی لگا تھا۔ مگر بسمہ خود مجبور تھی۔ اس تکلیف کے جواب میں وہ گرمجوشی کیسے دکھاتی؟
اس نے کئی دفعہ نوٹ کیا کہ باسط اس کا موبائل بھی چیک کرتا ہے۔ حالانکہ اس کے پاس نا بیلنس ہوتا نا میسج پیکج۔ فائزہ کے جانے کے بعد تو پورا پورا دن وہ موبائل اٹھا کے بھی نہیں دیکھتی تھی عموما چارج بھی کرنا بھول جاتی تو کئی دن بند پڑا رہتا۔
اتوار کو وہ ناشتہ وغیرہ بنا کر اوپر آئی تو اس کا موبائل باسط کے ہاتھ میں ہی تھا۔
"کیا مصیبت ہے تم سے ایک موبائل بھی چارج نہیں ہوتا۔ گیم کھیلنا تھا مجھے۔”
بسمہ کی نظر غیر ارادی طور پہ باسط کے موبائل پہ گئی۔
"اسی پہ کھیل رہا تھا اس کی بیٹری لو ہوگئی ہے۔ سوچا تمہارے پہ کھیل لوں مگر تم ہمیشہ کی سست عورت ایک موبائل تک چارج کرکے نہیں رکھ سکتیں۔”
اتنی دیر میں وہ بات کرتے کرتے موبائل چارجنگ پہ لگا چکا تھا۔
"مجھے ضرورت نہیں پڑتی تو یاد بھی نہیں رہتا۔”
"اوہو ایسے بتا رہی ہیں محترمہ جیسے مجھے تو پتا ہی نہیں۔ آج کل کوئی ہے ایسا جو موبائل استعمال کیئے بغیر رہتا ہو۔ خود بےوقوف ہو تو دوسروں کو بھی سمجھتی ہو۔”
اس نے کہتے کہتے پاور کا بٹن دبایا۔ اسکرین آن ہوتے ہی ایک ساتھ کئی میسج آگئے۔ باسط نے ایک جتاتی ہوئی نظر بسمہ پہ ڈالی اور انباکس میں جاکر پہلا میسج کھول لیا۔
"بسمہ! پلیز مجھے معاف کردو”
"بسمہ مجھے اب تک افسوس ہے میں ایسا لڑکا نہیں ہوں پلیز مجھے معاف کردو۔”
"بسمہ اس دن تمہیں دوبارہ دیکھنے کے بعد سے یہ شرمندگی کا احساس اور بڑھ گیا ہے تم نے معاف نا کیا تو میں مر جاوں گا۔”
باسط با آواز بلند میسجز پڑھتا جارہا تھا۔
اس نے موبائل سائیڈ ٹیبل پہ پٹخا
"دیکھ لیا۔ بڑی پارسا بن رہی تھی دو سیکنڈ پہلے، اب تک یاروں کو پیچھے لگایا ہوا ہے۔ شرم نہیں آتی تجھے نیچ عورت۔”
بسمہ پہ تو سکتہ طاری تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ بس اب اس کی سانس بند ہوجائے گی۔ اسے سمجھ یہ نہیں آرہا تھا کہ اسلم کو اس کا نمبر ملا کہاں سے؟
ایک لمحے کے لیئے اسے لگا شاید یہ کوئی اور ہو مگر کیسے، اور کون ہوسکتا تھا؟ اور کسی نے کچھ ایسا کیا ہی کب جس کی اسے بسمہ سے معافی مانگنی پڑے اور جس نے حال ہی میں بسمہ کو دیکھا ہو۔ بسمہ کا دماغ اسی میں الجھا تھا کہ باسط نے آگے بڑھ کے اس کے بال پکڑ لیئے۔
"شرم نہیں آتی تجھے اب بھی ملنے جاتی ہے اس سے۔”
"میں کہیں نہیں گئی۔” بسمہ اس اچانک حملے پہ گھبرا گئی اس کی آواز کانپنے لگی۔
"جھوٹ پہ جھوٹ؟ تو تیرے عاشق کو خواب میں دیدار ہوا تھا تیرا؟”
"باسط میرا یقین کریں۔ مجھے نہیں پتا یہ کون ہے اور کس بات کی معافی کی بات کر رہا ہے اور اس نے مجھے کہاں دیکھا۔” بسمہ سسکی۔
"باسط آپ گھر میں کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں میں گھر سے آپ کے ساتھ ہی تو نکلتی ہوں۔”
"کیوں پوچھوں میں کسی سے؟ یہ سامنے ثبوت موجود ہے میرے۔” ہر دفعہ بات کرتے میں وہ بالوں کو زور سے جھٹکا دیتا تھا۔ تکلیف سے بسمہ کے آنسو بہنے لگے۔
"عورت ذات ہوتی ہی نیچ ہے، شوہر کا چھونا برا لگتا ہے دوسروں کو سب اجازت ہے۔” باسط اتنی زور زور سے بول رہا تھا کہ برابر کے کمرے سے نازیہ بھابھی اور رافع بھائی بھی نکل کے آگئے۔ نازیہ بھابھی نے آکر بسمہ کو چھڑوایا۔ باسط نے جھٹکے سے بسمہ کو دھکیلا کہ اس کا سر دروازے سے جا کر ٹکرایا اور دندناتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ رافع بھائی نے کچھ سیکنڈ پر تجسس نظروں سے بسمہ کو اور باسط کے پیچھے خالی رہ جانے والی سیڑھیوں کو دیکھا اور پھر کندھے جھاڑ کے کمرے میں چلے گئے۔ نازیہ بھابھی نے بسمہ کو سہارا دے کر بیڈ پہ بٹھایا۔
"دیکھا میں کہتی ہوں نا میاں کے مزاج کا خیال رکھا کرو۔ اب پھر کوئی پھوہڑ پن دکھایا ہوگا۔ تم سدھرو گی نہیں اور وہ پھر غصے میں آ کر اور زیادہ مارپیٹ کرے گا۔”
"میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔” بسمہ نے بہ مشکل سسکیوں کے درمیان کہا۔
"بس بی بی کہنے کی باتیں ہیں ہم عورتوں کی یہی تو غلطی ہے اپنی غلطی نہیں مانتیں اور شوہر کے ظلم کے رونے روتی رہتی ہیں۔بسمہ شوہر مجازی خدا ہوتا ہے اس کی خدمت ہی تو عورت کی اصل جنت ہے”
بسمہ خاموشی سے گھٹنوں میں سر دیئے سسکتی رہی۔ نازیہ بھابھی کچھ دیر بیٹھیں پھر شاید بور ہوکر چلی گئیں۔
روتے روتے جب تھک گئی تو پھر دماغ میں یہی بات آئی کہ اسلم کو اس کا نمبر ملا کہاں سے؟ اس نے موبائل اٹھایا سوچا میسج کرے مگر پھر یاد آیا کہ بیلنس ہی نہیں ہے کافی دیر بعد ایک دم خیال آیا تو 10 روپے کا ایڈوانس لے کر فورا ایک دن کا پیکج کر لیا۔
پیکج کنفرم ہوتے ہی پہلا میسج اس نے یہی کیا
"کون ہو تم یہ نمبر کہاں سے ملا تمہیں”
دوسری طرف شاید وہ موبائل ہاتھ میں لیئے بیٹھا تھا۔ فورا ریپلائے آیا
"میں اسلم فرقان، اس دن تم باسط بھائی کے ساتھ گھر آئی تھیں نا اس وقت انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے اپنا پرانا نمبر تمہیں دے دیا ہے وہ نمبر تھا میرے پاس۔ بسمہ پلیز مجھے معاف کردو اس دن پتا نہیں مجھے کیا ہوا تھا میں بہت شرمندہ ہوں۔”
"تم نے جو میسج کیا وہ باسط نے پڑھا تھاپہلے۔”
"اوہ پھر؟، کچھ کہا کیا تمہیں؟ ایم سوری مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تمہارا موبائل ان کے پاس بھی ہوسکتا ہے۔ مجھے شرمندگی اتنی ہے کہ کچھ زیادہ سوچے سمجھے بغیر ہی میسج کردیا۔ تم کہو تو میں باسط بھائی کو بات کلئیر کردوں؟”
"تم چاہ رہے ہو کہ اب وہ میرا گلا ہی دبا دیں تو موسٹ ویلکم۔”
بسمہ غصے میں اسے ریپلائے کیئے جارہی تھی یہ سوچے بغیر کہ یہ مزید مسئلہ نا بن جائے۔
"واہ بھئی پٹ کر بھی یار سے بات نہیں چھوٹی”
پتا نہیں کب نازیہ بھابھی دوبارہ آگئی تھیں۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ باسط سے ساری روداد سن کر آئی ہیں۔
"ویسے حیرت ہے باسط جیسا شوہر ہونے کے باوجود تمہیں کسی دوسرے کی ضرورت پڑتی ہے؟” جس گھٹیا بات تک بسمہ کی سوچ بھی نہیں پہنچتی تھی نازیہ بھابھی وہ باتیں اتنے آرام سے کرلیا کرتی تھیں جیسے ڈیلی روٹین کے کام۔
"نازیہ بھابھی مجھے نہیں سمجھ آرہا آپ کیا کہہ رہی ہیں، کس چیز کی ضرورت؟ میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” کچھ کچھ بسمہ کی سمجھ میں آرہا تھا مگر وہ نازیہ کو مزید کھلنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔ مگر اسے حیرت یہ ہوئی کہ نازیہ جس طرح حوالہ دے رہی ہے کہ باسط جیسا شوہر اس سے نازیہ کا کیا تعلق۔ اسے کیا پتا کہ باسط "کیسا” شوہر ہے؟
"زیادہ معصوم تو تم بنو مت، فہد سے آج کل تمہارے کیا رازونیاز چلنے لگے ہیں اس کا مجھے اندازہ ہے۔ تمہارے لیئے کیسے مجھ سے زبان درازی کر رہا تھا۔ یہ فہد ہی کے میسج تو نہیں؟ ویسے زیادہ ہی دلیر ہو جو کھلم کھلا یار سے میسجنگ کی جارہی ہے۔”
نازیہ بھابھی بہت ہوگیا آپ پلیز چلی جائیں آپ کو پتا بھی ہے آپ کتنی گھٹیا بات کر رہی ہیں؟فہد بھتیجا ہے باسط کا۔ میرا اور اس کا احترام کا رشتہ ہے۔”
"ہاں جی تبھی شرما کے دوپٹے ٹھیک کیئے جاتے ہیں۔”
بسمہ نے بہت مشکل سے خود کو کوئی جواب دینے سے باز رکھا۔ وہ اٹھ کر باتھ روم منہ دھونے چلی گئی۔
واپس آئی تو نا نازیہ بھابھی تھیں نا موبائل۔
بسمہ کو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ موبائل بیڈ پہ سامنے ہی چھوڑ کر گئی تھی۔ مگر پھر بھی تسلی کے لیئے اس نے تکیے وغیرہ ہٹا کے دیکھے سائیڈ ٹیبل کی درازیں چیک کیں مگر موبائل کہیں بھی نہیں تھا۔ اس نے واقعی نہیں سوچا تھا کہ نازیہ بھابھی اتنا زیادہ بڑھ جائیں گی کہ اس سے پوچھے بغیر اس کا موبائل اٹھا کے لے جائیں گی۔ اسے حیرت ہوتی تھی اس عورت کی اخلاقیات پہ جو ہر وقت کوئی نا کوئی اخلاقی اور مذہبی نصیحت موقعے کی مناسبت سے تیار رکھتی مگر خود کبھی بھی کسی اخلاقی اصول کی پاسداری نہیں کرتی تھی۔ بسمہ کے ہاتھ پاوں پھول گئے یہ سوچ کر کہ اب باسط اس کی ابھی ابھی ہوئی بات چیت پڑھ لے گا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ دو تین بہت بری بری گالیاں خود کو دے اور دو تین اسلم کو۔ وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب اس نے اسلم کو ریپلائے میسج کیا تھا۔
پھر ایک موہوم سے امید ہوئی کہ شاید کوئی بچہ کھیل کھیل میں اٹھا کے لے گیا ہو وہ فورا بھاگ کر نیچے آئی مگر آخر کی سیڑھیاں اترے اترتے اس کے قدم آہستہ ہوگئے۔ نازیہ بھابھی اور باسط ہال کمرے میں سامنے ہی بیٹھے تھے نازیہ بھابھی باسط کے کندھے سے جڑی بیٹھی تھیں اور بسمہ کا موبائل انہی کے ہاتھ میں تھا اور وہ باسط کو اس میں کچھ دکھا رہی تھیں۔ دونوں کے سر تقریبا جڑے ہوئے تھے اور نظریں موبائل اسکرین پہ۔ باسط کے چہرے پہ واضح غصہ تھا۔ انہیں شاید بسمہ کے قدموں کی آواز آئی تو ایک ساتھ ہی سر اٹھا کے دیکھا۔ دونوں کی پوزیشن میں صرف اتنا فرق پڑا کہ سر سیدھے ہوگئے اس سے زیادہ دور ہونے کی دونوں میں سے کسی نے کوشش نہیں کی۔
نازیہ بھابھی کے چہرے پہ فاتحانہ سے تاثرات تھے۔ باسط کچھ سیکنڈ بسمہ کو غصے میں گھورتا رہا پھر ایک دم اٹھنے کی کوشش کی مگر نازیہ بھابھی نے ہاتھ پکڑ کے روک دیا اور ہاتھ سہلا کر جیسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
"باسط آپ کمرے میں جاو میں سنبھالتی ہوں مسئلہ بس آپ پریشان نا ہو۔” نازیہ بھابھی نے ایک ہاتھ سے باسط کا گال تھپتھپایا
باسط نے فرمانبردار بچوں کو طرح سر ہلایا اور بسمہ کو گھورتا ہوا برابر سے گزر کے اوپر چلا گیا۔
نازیہ بھابھی نے تاسف سے بسمہ کو دیکھا جو واضح طور پہ بناوٹی لگ رہا تھا۔
"بسمہ کتنے افسوس کی بات ہے آپ ایک مسلمان شریف گھرانے کی لڑکی ہو، عزت دار گھرانے کی بہو ہو۔ کس چیز کی کمی ہے آپ کو جو آپ اس طرح گناہ میں مبتلا ہورہی ہو۔”
بسمہ کو ان کا بن بن کر آپ آپ کہہ کر بات کرنا شدید زہر لگ رہا تھا۔ وہ پہلے ہی پریشان تھی۔ سر کی چوٹ میں تکلیف ہورہی تھی پھر نازیہ بھابھی کا اس طرح موبائل اٹھا کے لے آنا، اسے ان پہ اتنا غصہ آرہا تھا کہ کنٹرول مشکل ہورہا تھا۔
"آپ کس کی اجازت کی سے میرا موبائل اٹھا کر لائیں۔”
"لو یعنی اپنے کیئے پہ کوئی شرمندگی ہی نہیں مجھ سے پوچھ تاچھ ہورہی ہے۔ بی بی آپ کے شوہر کو حق ہے کہ اسے آپ کی حرکتوں کا پتا ہو تاکہ وہ آپ کو گناہ میں مبتلا ہونے سے روک سکے۔ یہ اس کی شرعی ذمہ داری ہے۔”
ابھی تک جو سب اپنے اپنے کمروں میں تھے اس بلند آواز سے کی جانے والی بحث سے ایک ایک کر کے نکلنے لگے۔ پہلے ساس اور سنیہ باہر آئیں پھر ساتھ والے کمرے سے رافیعہ بھابھی آئیں۔
"کیا ہوا کیوں صبح صبح شور مچا دیا ہے۔”
سنیہ جھنجھلائی ہوئی تھی۔ اسے کالج کی وجہ سے صرف اتوار کا دن ہی نیند پوری کرنے کا ملتا تھا۔
"یہ تو اپنی پیاری چھوٹی بھاوج سے پوچھو کیا کارنامے کر رہی ہیں۔”
سنیہ نے کچھ حیرت سے بسمہ کی طرف دیکھا کیونکہ اب تک کم از کم اس نے یہی دیکھا تھا کہ بسمہ "کارنامے” دکھانے والی کیٹیگری کی بندی ہی نہیں تھی۔ سنیہ کو اتنا تو اندازہ تھا کہ اس میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ کچھ ایسا ویسا کام کر سکے۔ بلکہ وہ بچاری تو سسرال میں ہر کسی کو خوش کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتی رہتی۔ سسر کی بار بار کی چائے، بچوں کی نوڈلز یا چپس بنانے کی فرمائشیں، سنیہ کے کپڑوں کی استری، ساس کے پیروں کی مالش ،پورا دن کسی ناکسی کی کوئی نا کوئی فرمائش پوری کرنے میں مصروف نظر آتی تھی اسے کارنامے دکھانے کا وقت ہی کہاں تھا۔
"نازی بھابھی آپ سے تو کم ہی کارنامے ہونگے مگر پھر بھی ہوا کیا ہے؟”
"محترمہ کا چکر چل رہا ہے احمد کے چھوٹے بھائی سے۔”
"کون وہ اسلم! وہ تو بہت چھوٹا نہیں ہے؟ یہ جانتی ہے اسے؟”
اس بار رافیعہ بھابھی حیرت سے بول پڑیں۔
"جانتی ہی ہوگی تبھی تو وہ میسج کر رہا ہے۔ اور پتا نہیں کیا گل کھلائے ہیں دونوں نے کہ وہ معافی مانگ رہا ہے۔”
” جانتی ہی ہوگی کیا مطلب؟ یعنی ابھی تک اسے ڈھنگ سے بتانے کا موقع دیئے بغیر ہی تم اس پہ اتنے بڑے بڑے الزام لگا رہی ہو؟”
"لے لیں آپ اس کی سائیڈ جب بیٹا ہاتھوں سے نکل جائے گا تو سر پکڑ کے روئیں گی۔”
"فہد کی بات کر رہی ہو؟ اس کا اس سب معاملے سے کیا لینا دینا۔” رافیعہ بھابھی نے مشکوک نظروں سے بسمہ کو دیکھا۔ ساس اور سنیہ کی آنکھوں میں بھی یقین اور بے یقینی کے ملے جلے تاثرات تھے۔ بسمہ کو ان سب کے ردعمل پہ شدید تکلیف ہورہی تھی وہ تقریبا سال سے ان کے سامنے تھی اس کا کردار اپنے مشاہدے پہ پرکھنے کی بجائے وہ سب ایک غیر یقینی بات پہ یقین کرنے کو تیار تھے۔ کیوں؟ مگر اس کا جواب بسمہ کے پاس نہیں تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا گھر اسکول اب سسرال ہر جگہ اس نے یہی رویہ دیکھا تھا پتا نہیں کیوں لوگ پہلے سے سوچ کے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہر لڑکی ہر وقت بہکنے کے لیئے تیار ہوتی ہے۔
"امی، سنیہ بھابھی آپ لوگ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں آپ کو واقعی لگتا ہے کہ ایسا کچھ ہوگا۔”
"لگنے کی گنجائش چھوڑی ہے تم نے؟ موبائل میں اسلم اور تمہارے میسجز ثبوت ہیں اس کا کہ کچھ تو ہوا تھا تم دونوں کے بیچ۔اور اس کو چلو چھوڑ بھی دیں تو یہ جو تمہارے اور فہد کے بیچ چل رہا ہے وہ کیا ہے” نازیہ بھابھی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کچھ نا بول دیں بسمہ کی کردار کی کمزوری کے ثبوت میں۔
"یعنی کسی بھی بات کو آپ اس سے جوڑ دیں گی کہ میں کچھ غلط کر رہی ہوں نا میسج میں کچھ ایسالکھا ہے نا آپ نے کبھی فہد اور مجھے کوئی نامناسب بات کرتے دیکھا۔ بلکہ اس حساب سے تو آپ کے اور باسط کے درمیان بھی کچھ ہوسکتا ہے جس طرح وہ آپ کی گود میں سر رکھ کے لیٹتےہیں آپ دونوں باتیں کرتے ہیں جڑ جڑ کر بیٹھتے ہیں۔”
اسے اتنا شدید غصہ آیا کہ اسے جو مبہم سا وہم تھا وہ اس کی زبان پہ آگیا اور وہ بھی صرف اپنا موقف بتانے کے لیئے کہ ذرا سی بات چیت کا مطلب ناجائز تعلقات نہیں ہوتے۔
اسے احساس ہی نہیں تھا کہ غصے میں اس نے وہ راز فاش کردیا جو چھپا ہونے کے باوجود چھپا ہوا نہیں تھا۔ بس وہ ہی بے خبر تھی۔

 

ابصار فاطمہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
افسانے کی حقیقی لڑکی از ابصار فاطمہ سے اقتباس