- Advertisement -

رشتہ ایسا ہونا چاہیے

محمدصدیق پرہار کا ایک اردو کالم

خلیفہ ثانی امیرالموئمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ رعایاکی خبرگیری کے لیے مدینہ کی گلیوں میں گشت کررہے تھے۔ کہ ایک گھرسے آوازآئی کہ ایک خاتون اپنی بیٹی کوکہہ رہی تھی کہ دودھ میں پانی ملادے۔ اس خاتون کی بیٹی کہتی ہے۔خلیفہ نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیاہے۔خاتون کہتی ہے وہ کون سادیکھ رہے ہیں۔ اس کے جواب میں بیٹی کہتی ہے۔وہ نہیں دیکھ رہے اللہ تودیکھ رہاہے۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ خاموشی سے وہاں سے چلے گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دوسرے دن اس لڑکی کے لیے اپنے بیٹے عبداللہ کارشتہ بھج دیا۔
کتاب سیرت غوث اعظم کے صفحہ ۸۴ پرسیدناغوث اعظم رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری کے مبارک حالات کے عنوان سے لکھاہے کہ تاریخ کی معتبرکتابوں میں بتایاجاتاہے کہ ایک دن آفتاب غروب ہوچکاتھا۔ چاندکی روشنی پورے طورپرزمین کے اوپرپھیل گئی تھی۔ ایک نوجوان نہ جانے کس عالم میں دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھاہواتھاکہ اچانک چاندکی چاندنی میں دریاکی لہروں میں بہتاہواایک شاداب سیب نظرآیا۔جھٹ نوجوان نے سیب کواپنے ہاتھوں میں لے لیااوربھوک کی شدت کے باعث کچھ سوچنے سے پہلے کھاتاہوااپنے گھرکی جانب چل دیا۔ ابھی کچھ ہی دورگیاہوگاکہ اس کے ضمیرکے جھنجھوڑاورنشاندہی کی کہ تویہ سیب قیمت دیے بغیرکیوں کھارہاہے۔خیال آتے ہی نوجوان ندامت سے پانی پانی ہوگیا جیسے تیسے بے قراری سے رات گزاری اورصبح کونمازفجرسے فراغت کے بعدہی سیب کے مالک کی تلاش میں گھرسے روانہ ہوگیا۔ مسلسل کئی دن تک دریاکے کنارے چلتارہا۔آخرسامنے ایک گھناباغ نظرآیا جس میں پہنچنے کے بعدایک بزرگ نورانی صورت دکھائی دی۔ اسلامی رسم ورواج کے مطابق نوجوان نے سب سے پہلے سلام کیااورانہوں نے بزرگانہ اندازمیں جواب دیا، گفتگوکے ذریعہ معلوام ہواکہ یہی بزرگ اس باغ کے مالک ہیں۔ چنانچہ بلاتاخیرنوجوان نے اپنے طویل سفرکامدعااورساراوقعہ بیان کیااورساتھ ہی اس سیب کی قیمت دریافت کی۔ مالک باغ نے کہابیٹاسیب کی قیمت اتنی کثیرہے کہ تم ادانہیں کرسکتے۔لیکن نوجوان نے قیمت اداکرنے کازورداراندازمیں اقرارکیااورمالک کے حکم کے مطابق باغ کی رکھوالی شروع کردی۔جس کی معینہ مدت ایک سال تھی مگرپورے دوسال گزرجانے کے باوجودمالک نے رخصت کی اجازت نہ دی جب چندسال گزرگئے توایک دن مالک نے کہابیٹااب میں تم کوتمہاری محنت کاصلہ دیناچاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ تم میری بیٹی سے شادی کرلوجودونوں آنکھوں سے اندھی ہے دونوں کانوں سے بہری ہے نوجوان نے بلاتامل قبول کرلیا۔شادی ہوگئی۔اس کے بعدمالک نے کہابیٹا میرے گھرکے اندرسوامیری لڑکی کے کوئی بھی نہیں ہے۔گھرکے اندرجایہ گھراب تمہاراگھرہے نہیں بلکہ یہ باغ اورکل جائیدادبھی تمہاری ہے۔ نوجوان گھرکے اندرگیاتودیکھ کرششدررہ گیاگویاوہ دنیاکی سجی سجائی دلہن نہیں بلکہ جنت کی کسی حورکاچہرہ تھا۔ چاندجیساچہرہ، چشم غزلاں شیریں زبان ہرعضوموزوں اورمتناسب۔ مالک کے بیان اورحقیقت حال میں زبردست فرق پایا۔دوسرے دن مالک سے سوال کیا۔ کہ آپ نے اپنی لڑکی کاجوحلیہ بتایاتھا۔ اورگھرکے اندرمیں نے جس مجسمہ حسن وجمال کودیکھااس میں توبڑافرق ہے۔ مالک نے نرم وشیریں لہجہ میں جواب دیا۔ بیٹے میں نے جوکچھ کہاتھا اورتم نے جودیکھادونوں ہی سچ ہے۔ اورحقیقت میں بات یہ ہے کہ اس لڑکی نے کبھی اپنی زبان سے خلاف شریعت کوئی بات نہیں کی اس لیے وہ گونگی ہے۔ اپنے کانوں سے کوئی فحش بات نہ سنی تھی اس لیے وہ بہری ہے۔کبھی اپنی آنکھوں سے کسی غیرمحرم کونہ دیکھاتھا اس لیے وہ اندھی ہے۔اپنے ہاتھوں سے کبھی کوئی غلط کام نہ کیاتھا اس لیے وہ لولی ہے۔کبھی جانب معصیت اپنے پیروں سے چل کرنہیں گئی تھی اس لیے وہ لنگڑی ہے۔ اس مقدس خاتون کانام فاطمہ ام الخیربنت عبداللہ صومعی تھااوراس پاکیزہ نوجوان کانام سیدابوصالح موسیٰ بن عبداللہ تھا۔ انہیں مقدس خاتون اورپاک باطن نوجوان کی اندواجی زندگی کے چمن لالہ زارسے ایک خوش رنگ اورمعطرپھول کھلاجس نے اپنی خوشبوئے روحانیت ومعرفت سے سارے عالم کو مہکادیا۔جوغوثیت وقطبیت کاتاجداربن کرآسمان ولایت پرآفتاب وماہتاب کی طرح جگمگایاجسے دنیانے غوث اعظم نے نام سے جانااورپہچانا۔ہمارے معاشرے میں لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں سے رشتہ مانگنے کومعیوب سمجھاجاتاہے۔ اس بات کوخاندان کی عزت کے خلاف سمجھاجاتاہے کہ ہم لڑکی والے ہوکررشتہ لے کرجائیں دنیاوالے کیاکہیں گے۔ سیدابوصالح موسیٰ بن عبداللہ اورفاطمہ ام الخیربنت عبداللہ صومعی کی شادی سے یہ پیغام بھی ملتاہے کہ ضروری نہیں کہ صرف لڑکے والے ہی رشتہ لے کرجائیں لڑکی والے بھی ایساکرسکتے ہیں۔
دونوں واقعات کابغورجائزہ لیاجائے توہمیں یہ سبق ملتاہے کہ گھربیٹے یابیٹی کی شادی کرتے ہوئے کون کون سی خصوصیات دیکھ کربہواوردامادکاانتخاب کرناچاہیے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے لڑکی میں خوف خداورایمانداری دیکھ کراپنے بیٹے کی شادی اس سے کرادی اورشیخ عبدالقادرجیلانی کے نانانے بھی آپ رضی اللہ عنہ کے والدمیں خوف خدااوردریامیں بہتاہواسیب کھاکراس کی قیمت اداکرنے کے لیے اتناسفرکرنااوربغیراجازت کھائے ہوئے سیب کوبخشوانے کے لیے کئی سال باغ کی رکھوالی کرتاہوادیکھ کراپنی پاک بازبیٹی کی شادی ان سے کردی۔اگرشوہراوربیوی نیک،پارسااورخوف خدارکھنے والے ہوں تواولادبھی نیک اورپارساپیداہوتی ہے۔ حضرت عمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ اس لڑکی کے نواسے ہیں جواپنی ماں سے کہہ رہی تھی کہ وہ(خلیفہ) نہیں دیکھ رہے اللہ تودیکھ رہاہے۔مندرجہ بالادونوں واقعات پڑھنے کے بعددرس ملتاہے کہ رشتہ ایساہوناچاہیے۔
موجودہ دورمیں بیٹے یابیٹی کارشتہ طے کرتے ہوئے والدین مندرجہ بالادونوں واقعات کومدنظررکھیں توبیٹے اوربیٹی کی ازدواجی زندگی کوبہت سے مسائل اورپریشانیوں سے پیشگی ہی بچایاجاسکتاہے۔موجودہ دورمیں رشتے تلاش کرتے وقت اورطے کرتے وقت صرف یہ دیکھاجاتاہے کہ اس رشتہ سے دوسرے فریق سے دنیاوی فائدہ کتنامل سکتاہے۔ دامادتلاش کرتے ہوئے اس کے کاروبار،اس کی جائیداد، اس کی ملازمت،اس کی آمدنی کومدنظررکھاجاتاہے۔ اب توایسادامادبھی تلاش کیاجاتاہے جومندرجہ بالاخوبیوں کے ساتھ ساتھ جہیز کاسامان خریدکردلہن کے گھرپہنچائے اوروہی سامان دلہن کی رخصتی کے ساتھ دولہا کے گھرواپس آجائے۔ اگرکوئی نوجوان یہ کہتاہے کہ اس کوجہیز سمیت دلہن کی طرف سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ تواسے کہاجاتاہے کہ جہیزکاسامان دلہن کے گھر پہنچاؤگے توہی تمہاری شادی ہوگی ورنہ نہیں۔ ایک طرف سے تویہ کہاجاتاہے کہ جہیزکی وجہ سے لڑکیاں اپنے ماں باپ کے گھروں میں بوڑھی ہورہی ہیں۔ ان لڑکیوں کے والدین جہیزنہیں دے سکتے۔ لڑکے والے بھاری بھرکم جہیزمانگتے ہیں۔ اورجب کوئی نوجوان یہ کہے کہ اسے جہیزنہیں چاہیے تواسے کہاجاتاہے کہ جہیزکاسامان لڑکی والوں کے گھرپہنچاؤگے توہی تمہاری شادی ہوگی۔ ہم قارئین کومنصف مانتے ہوئے یہ فیصلہ ان پرچھوڑتے ہیں کہ لڑکیوں کی شادیاں نہ ہونے کے اصل ذمہ دارکون کون ہیں۔ اورسوال یہ بھی ہے کہ جونوجوان کہتاہے کہ اسے جہیزنہیں چاہیے تواس کی شادی کیوں نہیں کرائی جاتی۔ رہایہ سوال کہ لوگ کیاکہیں گے،معاشرے میں کیاعزت رہ جائے گی،جب دلہن جہیزلے کرنہیں آئے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ سوال یہ بھی ہے کہ جب دلہن بھاری بھرکم جہیزلاتی ہے تولوگ جہیزدینے والوں کو،جہیزلانے والی کواورجس گھرمیں دلہن جہیزلائی ہواس گھرکولوگوں نے اورمعاشرے نے آج تک کتناانعام دے دیاہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بیٹی کوجہیزنہیں دیناچاہیے۔والدین اپنی استطاعت میں رہتے ہوئے اپنی خوشی سے چاہیں تواپنی بیٹی کوجہیزدے سکتے ہیں۔ مگرنہ تودلہن والوں سے یہ مطالبہ کیاجائے کہ وہ اپنی بیٹی کوجہیزدیں اورنہ دلہن والے دولہاوالوں سے جہیزکاسامان خریدکران کے گھرپہنچانے مطالبہ کریں۔ والدین بیٹیوں کوجہیزاپنی مالی استطاعت میں رہتے ہوئے دے سکتے ہیں۔اس کے لیے وہ کسی سے قرض، ادھاریاامدادنہ لیں کیوں کہ جہیزدینافرض یاواجب نہیں ہے۔شادی آسان کروتحریک کی طرف سے پاکستان میں رہنے والے شہریوں کے لیے پیغام ہے کہ ہم سب کومل کراس کلچر، اس رویے اوراس رواج کوبدلناہوگا۔ معاشرے میں ایساشعوراجاگرکرنے کی ضرورت ہے جس سے کسی کوجہیزنہ لانے پراعتراض نہ ہو، جس میں دلہن کوجہیزکم لانے یانہ لانے کے باربارطعنے نہ دیے جائیں۔ ہمیں معاشرے میں ایسا شعور بیدارکرنے کی ضرورت ہے جس کے بعداس وجہ سے بیٹیاں گھروں میں نہ بیٹھی رہیں کہ ان کے والدین جہیزنہیں دے سکتے،جس کے بعدکسی نوجوان کویہ بھی نہ کہاجائے کہ جہیزکاسامان لڑکی والوں کے گھرپہنچاؤگے توہی تمہاری شادی کرائیں گے۔ہمیں ایساشعوربیدارکرنے کی ضرورت ہے جس کے بعدکسی لڑکے یالڑکی کسی شادی میں اس وجہ سے تاخیرنہ ہوکہ اس کے والدین جہیزنہیں دے سکتے۔کسی بیٹے یابیٹی کی شادی میں رسم ورواج کی وجہ سے تاخیرنہ ہو۔کسی لڑکے یالڑکی کی شادی میں اخراجات کی کمی کی وجہ سے دیرنہ ہو۔ہم سب کوایساشعوراجاگرکرنے کی ضرورت ہے جس کے بعدرشتے تلاش کرتے وقت اورطے کرتے وقت کاروبار،ملازمت، جائیداد،سرمایہ،جہیز،زیورات، بینک بیلنس، تعلقات، خاندانی وکاروباری مجبوریاں،پیسہ، خوبصورتی اورسٹیٹس پرداماداوربہوکے مزاج،سلیقہ مندی،احساس ذمہ داری،تربیت،کفایت شعاری،فرائض کی ادائیگی اوردوسروں کے حقوق کی حفاظت جیسی خوبیوں کوترجیح دی جائے۔ شادی آسان کروتحریک کی طرف سے قارئین کودعوت دی جاتی ہے،شادیوں کی فضول رسومات، غیرضروری اخراجات اوربے جامطالبات کے خاتمے کے لیے اپنے اپنے دائرہ اختیارمیں رہتے ہوئے کرداراداکریں۔وزیراعظم شہبازشریف کوجہیزسمیت فضول اورغیرضروری رسومات کے بغیرکم سے کم اخراجات میں ہونے والی ایسی شادیوں کے لیے ایک لاکھ روپے سے پانچ لاکھ روپے تک انعام کااعلان کرناچاہیے جس میں دولہااوردلہن کے لیے ایسی کوئی شرط نہ ہوجس کی وجہ سے انہیں ایسے حق اور اختیار سے محروم کردیاگیاہوجواسے شریعت میں دیاگیاہو۔
راقم الحروف اپنے نعتیہ کلام اور دو ناول شائع کراناچاہتاہے۔ نعتیہ کلام اور ایک ناول کی کمپوزنگ مکمل ہے۔ جب دوسرے ناول کی کمپوزنگ جاری ہے۔ اس کے مالی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے کہ یہ اپنانعتیہ کلام اور دونوں ناول کتابوں کی صورت میں شائع کراسکے۔ اگرآپ کے مالی حالات اجازت دیتے ہیں،اگرآپ کسی مکتبہ کوچلارہے ہیں یاآپ خودپبلشر ہیں توراقم الحروف کالکھاہوانعتیہ کلام اوردونوں ناول کتابوں کی صورت میں شائع کرادیں۔راقم الحروف امام مسجد ہے۔ مزیدمعلومات اورتفصیل کے لیے اس کے موبائل نمبر03067999155 پررابطہ کرسکتے ہیں۔کال ریسیو نہ ہوتومیسج کردیں راقم الحروف خود رابطہ کرلے گا۔ اللہ آپ کواس کارخیرکی جزاء دے گا۔ آمین

محمدصدیق پرہار

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سید زاہد کا ایک کالم