یہ اپنے آپ سے نمٹ نہیں سکی
کہ زندگی کبھی پلٹ نہیں سکی
مری جلی ہتھیلیوں میں آج تک
مری کوئی دعا سمٹ نہیں سکی
سراجِ رہ گزر دھواں دھواں سا ہے
ردائے شب جو اُس سے پھٹ نہیں سکی
یہ عہدِ ناتواں ہے جس سے ایک سل
مرے وجود پر سے ہٹ نہیں سکی
کبھی شبِ غریب کے چراغ سے
صدائے روشنی لپٹ نہیں سکی
ناصر ملک