پودوں کا مسئلہ تو فقط دیکھ بھال ہے
پوچھو نہ جو گلاب فروشوں کا حال ہے
منصب تو خیر زخم کا یوں بھی نہیں پتہ
بس شکر کر رہا ہوں اذیت بحال ہے
افسوس کا سراغ ہے جس کے مزاج پر
تصویر میں وہ رنگ زیادہ نڈھال ہے
گریے کا اکتفا سے تعارف کرائیے
پانی میں اس بھنور کا ابھی پہلا سال ہے
جیسے کسی بزرگ سے غصے میں بات چیت
یہ آئینے میں شرم نہیں ہے ، ملال ہے
کیا عمر ہے جو گزری گزاری نہیں ہوئی
اس خواب میں تو پلکیں جھپکنا محال ہے
لیکن ، بھلا رہا ہوں مرا حوصلہ تو دیکھ
لیکن ، میں بھول جاؤں مری کیا مجال ہے
سورج نہیں ہے اور ہے دن بھی چڑھا ہوا
میں بھی یہاں چراغ نہیں ہوں ، کمال ہے
ہم خوش ہیں اک خیال ِ خداۓ خیال سے
ویسے ضمیر قیس ترا کیا خیال ہے ؟
ضمیر قیس