*تاجدار دارالاحسان ابو انیس حضرت شیخ صوفی محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ*
ایک انقلاب آفریں شخصیت
آپکا سالانہ عرس پاک ہر سال 16رمضان المبارک کو المستفیض دارالاحسان سمندری روڈ فیصل آباد میں منعقد ہوتا ہے۔
اس دنیا میں بے شمار ایسے بندگان خدا تشریف لائے جنھوں نے اپنے سیرت وکردار اور حسن اخلاق سے ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کی تابانیوں سے معاشرہ انکی رحلت کے بعد بھی جگمگا رہا ہے۔ اور انکے فیض کی ضوفشانیاں ہر سو روشنی کی کرنیں بکھیر رہی ہیں۔ انہیں بندگان خدا میں سے تاجداردارالاحسان ابو انیس حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانوی ؒبھی ایک تھے۔ جنھوں نے نصف سے زائد صدی تک بیک وقت کئی محاذوں پر براجمان ہوکر وہ عظیم خدمات سرانجام دیں۔جنکی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپؒ برصغیر کے وہ بزرگ ہیں جنکی تصانیف عالم اسلام کے تمام سربراہوں کے زیر مطالعہ رہی اور یہ تصانیف آج بھی دنیا کی تمام لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔
تاجداردارالاحسان ابو انیس حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ1911کو موضع برہمی ضلع لدھیانہ (انڈیا)میں پیدا ہوئے۔آپؒ کے والد گرامی کا اسم مبارک حضرت میاں نگاہی بخش ؒ تھا۔ آپؒ نے اپنے وقت کے معروف روحانی بزرگ شاہ ولایت حضرت شیخ سید امیرالحسن سہارنپوریؒکے دست مبارک پر بیعت کی۔ باواجی سرکارابو انیس حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ اگر چہ مادر زاد والی تھے۔ لیکن والد گرامی کی خواہش پر آپؒ نے 19اپریل 1930کو فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1933میں آپؒ انڈین اکیڈمی کے وائی کیڈٹ منتخب ہوگئے کورکمانڈر جنرل وچ آپؒ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھا۔اور وہ آپؒکی تقلید میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں کچھ نہ کھاتا پیتا تھا۔ فوجی ملازمت کے دوران آپؒ اپنے فرائض سے فارغ ہوکر اکثر وبیشتر کلیر شریف میں حضرت علاؤ الدین علی احمد صابر ؒکے مزار پرانوار پر حاضری دیتے اور وہاں ساری ساری رات مجاہدہ میں گزار دیتے۔جوں جوں آپؒ کا سینہ مبارک صابری مے سے لبریز ہوتا گیا۔آپؒکی حالت روز بروز بدلتی گئی۔بلا آخر آپؒنے 22جون 1945کو فوج سے استعفی دے دیا۔ اسوقت جنگ عظیم جاری تھی اور اس نازک وقت میں آرمی سے استعفی برٹش حکومت سے غداری کے مترادف تھا۔ جس کی سزا کالا پانی، عمر قید یا پھانسی تھی۔ ابتداء میں برٹش کی طرف سے آپؒ کو فیصلہ تبدیل کرنے کے لئے طرح طرح کے لالچ دیئے گئے۔ لیکن جب آپؒ ان کے دام میں نہ آئے تو آپؒ کو زہر دے دیا گیا۔ خدا کی قدرت کہ آپؒ کو ایک قے آئی جس سے زہر خارج ہوگیا۔ بعدازاں آپؒ کو کورٹ مارشل میں بھی باعزت بری کردیا گیا۔ فوجی وردی اتارنے کے بعد آپؒ نے خدا کے سپاہی بن کر حضرت علاؤ الدین علی احمد صابرؒکے مزار اقدس پر خداوندکریم سے تین وعدے کئے کہ اپنی زندگی ان کاموں میں صرف کروں گا۔
۱۔ ذکر الہی، ۲۔ دین اسلام کی دعوت وتبلیغ۔ ۳۔ اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت
دنیا نے دیکھا کہ زمانے میں کئی نشیب وفراز آئے لیکن آپؒ پوری زندگی پہاڑ کی استقامت کے ساتھ ان تینوں محاذوں پر ڈٹے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ ؒ نے کچھ عرصہ گجرات میں قیام کرنے کے بعد حافظ آباد کے قصبہ سکھیکی میں کیمپ لگایا اور یہاں ایک سال تک مقیم رہے۔ بعد ازاں آپؒ نے سالار والہ موجودہ دارالاحسان کو اپنی دینی، تبلیغی اور رفاعی و فلاحی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جو جلددنیا ئے اسلام میں دارالاحسان کے نام سے مشہورہوگیا۔ اس مقام پر آپؒ نے ایک خوبصورت مسجد، دوچھوٹی مساجد، ایک دینی درسگاہ، ایک قرآن کریم محل، مینار بیاد اصحاب بدرؓاور ایک بہت بڑا فری ہسپتال قائم کیا جہاں ہزاروں مریضوں کو نہ صرف علاج معالجہ کی مفت سہولتیں فراہم کی جاتیں بلکہ ان کے خوردونوش کا بھی اہتمام کیا جاتا۔ اور اسکے معاوضہ میں ایک پیسہ تک وصول نہ کیا جاتا۔ اسطرح دارالاحسان میں روحانی علاج کے ساتھ ساتھ جسمانی علاج بھی کیا جاتا۔ 1984میں باواجی سرکار تاجداردارالاحسان ابو انیس حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانوی ہجرت کرکے ؒفیصل آباد کے قریب دسوھہ سمندری روڈ پر تشریف لے گئے۔ اس مقام کو المستفیض دارالاحسان سے منسوب کیا گیا۔ یہاں بھی آپؒ نے ایک خوبصورت قرآن کریم محل اور ایک بہت بڑا فری ہسپتال قائم کیا۔ تاجداردارالاحسان ابو انیس حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ ایک انقلاب آفرین شخصیت تھے۔جنھوں نے خانقاہی نظام کو ایک نئی جہت دیکر اسے تروتازگی بخشی۔ آپؒ نے عام سجادہ نشینوں کے برعکس ایک کچی جھونپڑی میں ڈیرہ جماکر نہ صرف لاکھوں انسانوں کی کایا پلٹ ڈالی بلکہ عمل وکردار کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کے تذکرے رہتی دنیا تک ہوتے رہیں گے۔ وقت کے بڑے بڑے روساء اور شہنشاء اور وزراء آپؒ کی خدمت حاضر ہوتے لیکن کسی کو آپؒکے آگے دم مارنے کی ہمت نہ ہوتی۔ مرحوم ضیاء الحق نے اپنے دوراقتدار میں ایک بار کمشنر فیصل آباد کو آپؒکی خدمت میں بھیجا کہ صدر ضیا ء الحق سرکٹ ہاؤس فیصل آباد میں آپؒ سے ملاقات کے متمنی ہیں۔ توآپؒ نے کاغذ کے ایک پرزے پر یہ تحریر کرکے کمشنر کے حوالے جواب کیا کہ بادشاہوں کے درباروں میں فقیر حاضر نہیں ہوا کرتے۔پھر آسمان فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا جب بڑے بڑے حکمران، وزراء لاکھوں،کروڑوں روپے جیبوں میں لیکر آپؒ کے حضور پیش کرنے کے لئے کھڑے ہوتے اور آپؒ فرماتے کہ جس خدائے بزرگ تر کی میں ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہوں۔ اسی میرے مالک نے اس نظام کو چلانے کا بندوبست کررکھا ہے۔ امریکہ کے ایک رفاعی ادارہ نے 1992میں آپؒ کو 5پانچ ارب روپے سے زیادہ مالی پیشکش کی مگر آپؒ نے اسے بھی قبول نہ کیا۔ ابو انیس حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ نے عمر بھر اس اصول پر مداومت فرمائی کہ
آج کا مال آج ختم ہو۔کل کی روزی کل ملے گی۔۔
نیز فرماتے کہ ہماری روزی پرندوں کی طرح ہے جو صبح گھونسلوں سے بھوکے اٹھتے ہیں لیکن شام کو سیر ہوکر لوٹا کرتے ہیں۔ آپؒ کی زندگی علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی مصداق تھی۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔
تاجداردارالاحسان ابو انیس حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ نے 300سے زائد کتب و رسائل تصنیف کیں۔جن میں مکشوفات منازل احسان، مقالات حکمت، ترتیب شریف اور اسماءالنبی الکریم ﷺبھی شامل ہیں۔ ترتیب شریف آپؒ نے قریباً40سال کی محنت پیہیم کے بعد تصنیف کی۔آج یہ کتاب مدینہ یونیورسٹی کے سلیبس میں شامل ہے۔ آپؒ نے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا جن میں زیادہ تر تعداد خانہ بدوشوں کی ہے۔ صدیوں سے گمراہی و ضلالت میں مبتلا یہ خانہ بدوش گگڑے قبول اسلام کے بعد نہ صرف یاحی۔یاقیوم کی صدائیں بلند کرتے دیکھائی دیتے ہیں بلکہ وہ مبلغ بن کر دین سے بھٹکے لوگوں کو بھی اسلام کی شاہراہ پر گامزن کرتے نظر آتے ہیں۔ باواجی سرکارؒکے پردہ فرمانے کے بعد آپؒکا عظیم مشن پورے جوش اور ولولہ سے آپؒ کے عقیدتمندآگے بڑھارہے ہیں۔
اب بھی اسی طرح فری آئی کیمپ لگا کر ہزاروں مریضوں کے مفت آپریشن کئے جارہے ہیں۔جگہ جگہ محافل ذکر منعقد ہورہی ہیں۔جیلوں میں قیدیوں کو مشروبات فراہم کئے جارہے ہیں۔ بیواؤں، یتیموں اور مسکینوں کے ماہانہ وظائف گھروں میں پہنچائے جارہے ہیں۔اور آپؒ کا لٹریچر اسی جذبہ سے مفت تقسیم کیا جارہا ہے۔ اس عظیم مشن کے سلسلہ کو دیکھ کر یہ راز منکشف ہوتا ہےکہ آپؒ قطب الاقطاب ہی نہیں بلکہ ایک انقلاب آفرین شخصیت تھے۔ جن کا فیض روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔ تاجداردارالاحسان ابو انیس حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ کا سالانہ عرس پاک ہر سال 16رمضان المبار ک کو المستفیض دارالاحسان دسوھہ سمندر ی روڈ فیصل آباد میں منایا جاتا ہے جہاں دنیا بھر سے اور بالخصوص ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں عقیدتمند یاحی،یاقیوم اور سیدنا کریم ﷺ کا ورد کرتے ہوئے آپ ؒ کے آستانے پر پہنچ کر اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں
تحریر۔ سید محمد ضمیر
ڈسٹرکٹ رپورٹر روزنامہ جنگ،جیو ٹی وی، دی نیوز