نرم، سنہری جھاڑ فانوس کی روشنی میں ایک خوبصورت بال روم میں ایک عظیم آرکسٹرا کی دور سے آتی ہوئی دھن گونج رہی تھی۔ ٹکسڈو پہنے مرد اور خوبصورت لباس میں ملبوس خواتین نفاست کے ساتھ چمکتے فرش پر حرکت کر رہے تھے۔ ان کی ہنسی اور نرم بات چیت دولت کی ایک سمفنی میں گھل مل رہی تھی۔
اس شاندار ہجوم کے درمیان ایک آدمی بیٹھا تھا، اپنے نفیس ٹکسڈو میں ملبوس، ایک عورت کے ساتھ جو سفید بہتے ہوئے لباس میں تھی، جو تازہ برف کی طرح چمک رہا تھا۔
یہ آدمی، الیگزینڈر، اس غیرمعمولی امتزاج کو محسوس کر رہا تھا، جو بے تابی اور خوف کا تھا۔ اس کے midnight-سیاہ بال بے عیب طریقے سے سنوارے گئے تھے، اور اس نے ایک چاندی کی گھڑی پہن رکھی تھی، جو اس کی کاروباری دنیا میں حیثیت کی گواہ تھی۔ لیکن جیسے ہی اس نے اپنی نظریں اپنی دائیں طرف کی، اس کا دھیان مکمل طور پر ارد گرد کی رونق سے ہٹ کر اس عورت کی طرف ہو گیا۔
لیلیٰ اس کا نام تھا، اور وہ اس کی زندگی میں اچانک ایک دھوئیں کی طرح داخل ہوئی تھی، دلکش اور پراسرار۔ اس کا لباس اس کے وجود پر ایک لطیف انداز میں تھا، اور اس کی لمبی، سیاہ زلفیں اس کی کمر پر ایک آبشار کی طرح بہ رہی تھیں۔ وہ خوبصورت تھی، اور اس لمحے میں، وہ گہری سوچوں میں گم تھی، کمرے کے پار گھورتی ہوئی۔
جب موسیقی ایک ولٹز میں بدل گئی، الیگزینڈر نے خاموشی کو توڑتے ہوئے احتیاط سے بات شروع کی۔ "آج رات تم کچھ سوچتی ہوئی لگ رہی ہو،” اس نے کہا، اس کی آواز موسیقی میں تقریباً گم ہو گئی۔
اس نے پلک جھپکائی، جیسے کسی خواب سے جاگی ہو، اور اس کی طرف دیکھا۔ ایک پل کے لیے، اس کے چہرے پر ایک کمزوری ظاہر ہوئی، جو ایک ایسی کہانی کا اشارہ دے رہی تھی، جو اس نے ابھی سنائی نہیں تھی۔ "میں صرف ان لمحوں کے بارے میں سوچ رہی تھی جو اہمیت رکھتے ہیں،” اس نے دھیمی آواز میں کہا، جو دل پر گہرا اثر ڈال گئی۔
"کون سے لمحے؟” الیگزینڈر نے دلچسپی سے پوچھا۔
اس نے توقف کیا، اس کی آنکھیں یادوں اور رازوں سے جگمگائیں۔ "وہ لمحے جب ہمیں ایسے انتخاب کرنے پڑتے ہیں جو ہماری راہیں متعین کرتے ہیں،” اس نے کہا، اس کے لہجے میں گہرائی بڑھتی گئی۔ "آج کی رات کچھ خاص محسوس ہوتی ہے، لیکن الجھن کے ساتھ۔”
الیگزینڈر کا دل تیز دھڑکنے لگا، اس کے الفاظ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے۔ وہ لیلیٰ کو ایک مدت سے جانتا تھا، لیکن یہ لمحہ انمول تھا۔ یہ قربت لمس کی نہیں، بلکہ خوف اور امیدوں کے اشتراک کی تھی۔
"کیا تمہیں انتخاب سے ڈر لگتا ہے؟” اس نے نرمی سے پوچھا۔ "یا شاید اس بوجھ سے جو وہ لاتے ہیں؟”
اس کی نظریں زمین پر جھک گئیں، اور وہ اپنے لباس کے کنارے کے ساتھ کھیلتی رہی۔ "دونوں تھوڑا تھوڑا،” اس نے تسلیم کیا، آخرکار اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے۔ "ہر انتخاب ہمیں ایک نئی راہ پر لے جاتا ہے، اور میں سوچتی ہوں، کیا میں تیار ہوں؟”
موسیقی کی آواز بڑھ گئی، اور بغیر سوچے سمجھے الیگزینڈر نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ "کیا تم میرے ساتھ رقص کرو گی؟”
ایک لمحے کے لیے لیلیٰ حیرت زدہ ہوئی، پھر ہنس دی۔ "ٹھیک ہے، لیکن میں بہت خراب ڈانسر ہوں۔”
"تو ہم دونوں خراب ہوں گے،” الیگزینڈر نے مسکرا کر کہا۔
جب انہوں نے رقص کیا، دنیا ماند پڑ گئی۔ ان کی ہنسی، ان کے خواب، اور خوف سب موسیقی کے ساتھ مٹ گئے۔ اور اس شام، انہوں نے نہ صرف رقص کیا بلکہ اپنے دلوں کو بھی قریب لانے کا راستہ بنایا۔
شاکرہ نندنی