- Advertisement -

خیالستان کی پری

علامہ راشد الخیری کا ایک اردو افسانہ

جب ملک خیالستان کی مشہور پری غفیرہ اس جرم کی مرتکب ہوئی کہ “وہ شہریار کی بلا اجازت جو اس سبھا کا راجا تھا، کامل تین روز اور تین رات اپنے فرض منصبی سے غیرحاضر رہی ہے” تو گو اس نے اپنی علالت اور مجبوری کے ہرچند عذر کیے۔ مگر شہریاری دربار نے اس کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اس کے پر نوچ کھسوٹ کر خیالستان کی سرحد سے باہر نکال دو ۔ وہ اس سبھا میں کبھی شریک نہ ہونے پائے اور خیالستان کی سرحد میں باقی عمر قدم نہ دھرے۔
شہریار کا یہ حکم ایک بجلی تھی جو غفیرہ کے دل پر گری اور تمام امیدوں اور آرزوؤں کو جلا کر خاک کر دیا۔ اس نے ایک حسرت بھری نظر تمام سبھا پر ڈالی۔ دنیا اس کی آنکھوں میں اندھیر تھی اور آنسو کی لڑیاں اس کے رخساروں پر بہ رہی تھیں۔ وہ روتی ہوئی آگے بڑھی اور بصد منت و سماجت یوں عرض کرنے لگی:
جنگل کے درند اور ہوا کے پرند پر راج کرنے والے راجا! خیالستان کا بچہ بچہ تیری حکومت کے گیت گا رہا ہے، جنوں کی زبردست قوم جو ایک دوسرے کو کھائے جاتی تھی، تیرے راج میں ایک گھاٹ پانی پی رہی ہے۔ چمنستان موسیقی جہاں دن دہاڑے پریاں لٹتی تھیں آج وہاں تن تنہا ہوا میں اچھلتی کودتی پھرتی ہیں اور کسی کی اتنی مجال نہیں کہ آنکھ ملائے۔ اس وقت راحت منزل کا چپہ چپہ اور کونہ کونہ، بارہ دری کا ایک ایک تنکا، درختوں کے پتے، ڈالیوں کے پھول، پھولوں کی پنکھڑیاں میری اس جدائی پر جو کبھی ختم نہ ہوگی، اس رات پر جس کی اب صبح نہ آئے گی آٹھ آٹھ آنسو رو رہی ہیں۔ مجھے اتنی اجازت ملے کہ جن محلوں میں مَیں نے پرورش پائی، جن درختوں کے نیچے میں بچپن میں کھیلی، جس گھاس پر میں نے قدم دھرے، جس پر میں لوٹی، ان سب سے لپٹ کر رخصت ہو لوں۔
غفیرہ کی یہ درخواست منظور ہوئی۔ خیالستانی لباس جو بدن پر تھا اتارا گیا۔ پر نوچ دیے گئے۔ اور وہ چیختی چلاتی، لپٹتی، لپٹاتی ایک ایک سے گلے مل کر خیالستان کی سرحد سے باہر نکل آئی۔
(٢)
اب غفیرہ ایک دوسری دنیا میں تھی جہاں گرمی میں لو کے تھپیڑے، برسات میں کڑک، چمک اور جاڑے میں کہرا پالا موجود تھا۔ جن آنکھوں نے کبھی خواب میں بھی تکلیف نہ دیکھی تھی اب وہ دن رات مصیبتیں دیکھتیں۔ جو دل رنج کے نام سے آشنا نہ تھا اب اس پر پے در پے آفتیں پڑتیں، جو پاؤں خیالستان میں وہاں چلتے پھرتے تھے جہاں مخملی زمین تھی، اب ان میں ببول کے کانٹے پار ہو جاتے۔ جس سر پر کبھی ایک بوند پانی کی نہ پڑی اب اس پر چھاجوں مینہ پڑتا۔ اور جس رخ پر کبھی دھوپ کی چمک تک نہ آئی تھی اب اس کو گرم ہوا کے جھونکے بھلسائے دیتے تھے۔
بہشتِ شہریار جو آسمانی جنت کا ایک نمونہ تھی، غفیرہ نے اس سے چھوٹ کر ایسی مصیبت ناک زندگی بسر کی کہ اس کے نالوں کی چوٹ جانوروں تک کے کلیجہ دہلاتی تھی۔ تاروں بھرا آسمان اس کے سر پر ہوتا، چاند کی روشنی اسے بے تاب کرتی۔ وہ دیوانہ وار خیالستان کی طرف دوڑتی اور اس قہقہہ دیوار سے سر ٹکرا کر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ دیکھتی کہ دن بھر کے بچوں سے چھوٹے ہوئے پرند کس شوق سے جُھٹ پٹے وقت لپک کر اپنے گھونسلوں میں دبکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی حالت کا خیال کرتی؛ خیالستان کی زندگی، سکھیوں کی چہل پہل، سبھا کی رونق، درخت، درخت کے پتے، پتوں کی سرسراہٹ، ہوا کی چھیڑ چھاڑ، بلبلوں کی چہکار، پھولوں کی مہکار، تیتریوں کا تھرکنا۔ جب یہ سماں یاد آتا تو کلیجہ مسوس کر رہ جاتی۔ رات کے اس سنسان وقت میں جب بادشاہ اپنے محلوں میں، غریب اپنی جھونپڑیوں میں بے خبر سوتے، دریا کا پانی تک تھم جاتا، نظام عالم کی ہر شے پر (خلاف اصول) سکون مطلق طاری ہوتا وہ وطن کی یاد میں اٹھتی اور خیالستان کی دیوار کے پاس ٹہلتی، ٹکریں مارتی، سر پھوڑتی، یہاں تک کہ تاڑ کے درختوں پر بسنے والی چڑیاں اس کے کانوں میں صبح کا پیغام پہنچا دیتیں۔
ایک رات جب کہ چودھویں کا چاند نیلگوں آسمان پر نہایت تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ اور اس کی روشنی نے در و دیوار، جنگل اور میدان میں نورانی چادر بچھا دی تھی، غفیرہ دریا کے کنارے جو خیالستان کی سرحد سے ملا ہوا لہریں لے رہا تھا، بیٹھی ہوئی اپنی تقدیر کو رو رہی تھی، قمر چہار دہم دریا کی گود میں لوٹ رہا تھا، غفیرہ قدرت کے اس کرشمے میں ایسی محو ہوئی کہ وہ چند لمحے کے واسطے اپنے تفکرات بالکل بھول گئی۔ دفعتاً اس نے اپنا منہ اٹھایا اور ایک حسرت آمیز نظر خیالستان کی سرحد پر ڈالی۔ دیکھتی کیا ہے کہ فصیل بیچ میں سے شق ہوئی اور ایک ایسی روشنی نمودار ہوئی جو اس دنیا میں غفیرہ نے نہ دیکھی تھی، وہ بے تاب ہو کر لپکی۔ جس طرح روشنی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جاتی تھی اسی طرح غفیرہ کا شوق قدم بقدم تیز ہوتا جاتا تھا۔ سرحد کے قریب پہنچنا تھا کہ فصیل اسی طرح بند ہو گئی اور وہ روشنی آناً فاناً بالکل غائب! بہتیرا سر پٹکا، ہرچند چیخی چلائی، مگر بے سود۔ یہ کچھ ایسا تعجب انگیز سماں تھا کہ غفیرہ اس مسئلہ پر جتنا غور کرتی تھی اتنا ہی پیچیدہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر وہ بھی خیالستان ہی کی رہنے بسنے والی تھی مگر اس قسم کا واقعہ اس نے تمام عمر میں کبھی نہ دیکھا تھا۔ سر پکڑ کر بیٹھ گئی اور جس مقام پر سے فصیل شق ہوئی تھی وہاں ٹکٹکی باندھ لی۔ رہ رہ کر کلیجہ میں ہوک اٹھتی تھی اور خیال آتا تھا کاش چند لمحہ پہلے پہنچ جاتی اور اس راز کو سمجھ جاتی، آخر یہ بھید ہے کیا؟ کیا میری طرح کوئی اور پری اس عتاب میں گرفتار ہوئی؟ مگر نہیں، ایسا ہوتا تو وہ چلی کہاں جاتی؟ زمین نگل جاتی، آسمان کھا جاتا؟
اب سمجھی، اوہو آج نو روز ہوگا، جب ہی یہ تمام سرحد جھاڑ فانوسوں سے جگمگا رہی ہے، ابھی تو ایک دفعہ دیوار اور روشن ہوگی تاکہ اس دنیا والے بھی جنت شہریار کی روشنی سے آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں۔ یہ رسم تو برسوں سے چلی آتی ہے کہ نوروز کی رات چند لمحہ کے واسطے یہ دیوار دو دفعہ شق ہو جاتی ہے، شاید پہلی دفعہ میں نے نہ دیکھا ہو خیر میری تقدیر، بیٹھی ہوں۔
اس وقت غفیرہ پر ایک وجد کی حالت طاری تھی۔ یہ تعلق کہ اب تھوڑی دیر میں دیوار شق ہوگی، اس کو بے تاب کر رہا تھا۔ بیٹھتی تھی، اٹھتی تھی، تھک جاتی تو پھر بیٹھ جاتی، مگر نگاہ فصیل پر سے نہ ہٹتی۔
رات کا اپنی منزل کو پورا کرنا تھا کہ ان ہی خوش الحان پرندوں نے جن کے زمزموں سے غفیرہ کے کان آشنا تھے، صبح صادق کے استقبال میں نغمہ سنجی شروع کی جس نے غفیرہ کے تمام ارمانوں کو خاک میں ملا دیا۔ اس نے ایک آہ سرد بھری اور مایوس ہو کر اٹھی چاہتی تھی کہ قدم آگے بڑھائے، دفعتاً فصیل شق ہوئی اور خیالستان کی روشنی سے تمام بیابان جگمگا اٹھا۔ غفیرہ دیوانہ وار دوڑی، اندر داخل ہوتی تھی کہ داروغۂ جنت نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ برسوں کے بعد ایک ہم جنس کی صورت کا نظر آنا تھا کہ غفیرہ پاؤں پر گری اور کہا:
کیا تقدیر مجھ کو اب یہ وقت نہ دکھائے گی کہ میں خیالستان میں داخل ہوں۔ اے مبارک داروغہ میری خستہ حالت پر رحم کر اور اتنی اجازت دے کہ میں ایک نظر بھر کر خیالستان کو دیکھ لوں۔
داروغہ: عزیز! عزیزوں کی عزیز غفیرہ! مجھ کو تیرے ساتھ دلی ہمدردی ہے مگر اتنی مجال نہیں کہ بلا اجازت شاہی تیرے ساتھ کوئی رعایت کر سکوں۔ اگر ایسا کروں تو جو حال آج تیرا ہے، وہی کل میرا ہوگا۔ ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ تو شہریار کے واسطے اس دنیا کا جس میں تو اب موجود ہے، کوئی ایسا تحفہ لا جس سے بہتر شے روئے زمین پر موجود نہ ہو۔ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تیرا تحفہ دربار شاہی میں پہنچا دوں گا اور تجھ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر تیرے تحفے نے شہریار کو خوش کر دیا تو تجھ کو خیالستان میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ بس وقت ہو چکا، اب میں زیادہ بات نہیں کر سکتا۔
ابھی یہ فقرہ پورے طور پر ختم بھی نہ ہوا تھا کہ دیوار بند، روشنی ندارد! اب غفیرہ پر خیالات کا ہجوم تھا، صبح ہو چکی تھی اور سامنے کے پہاڑوں سے آفتاب جہاں تاب بلند ہوتا چلا آتا تھا۔ بہت سی ادھیڑ بن اور پیچ و تاب کے بعد غفیرہ نے یہ ہی فیصلہ کیا کہ گو کہ کامیابی کی امید مشکل اور موہوم ہے لیکن اس سے زیادہ بیوقوف کون ہو سکتا ہے جو محض اس خیال سے کہ کام مشکل ہے، اس کے انجام دینے کی کوشش نہ کرے۔ میں اس وقت تک یہ کوشش جاری رکھوں گی کہ دنیا کا بہترین تحفہ شہریار کے واسطے لے جاؤں جب تک موت میری اس آرزو کو مجھ سے جدا کردے۔
(٣)
یہ فیصلہ قطعی تھا اور اس کے بعد غفیرہ مدتوں جنگل کی خاک اڑاتی اور شہروں کی گلیاں چھانتی پھری۔ اب اس کا کام صرف اشیائے دنیوی کا مطالعہ تھا۔ رات کی نیند، دن کی بھوک، غرض اطمینان اور آرام کی کوئی صورت نہ تھی۔ جنگل کے پھل کھا کر پیٹ بھر لیتی اور چشموں کے پانی سے پیاس بجھاتی۔ گھڑی آدھ گھڑی کو کسی درخت کے نیچے پڑ رہی، نیند کا غلبہ ہوا آنکھ لگ گئی، ہوشیار ہوئی اور اپنی دھن میں ہڑبڑا کر دوڑی۔ آٹھ مہینہ کے قریب اسی طرح چکر لگاتی ہوئی وہ ایک روز جب کہ آفتاب غروب ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا ایک ایسے مقام پر پہنچی جہاں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کا مجمع تھا۔ ایک اونچے سے ٹیلے پر ایک شخص کھڑا تھا جس پر یہ الزام تھا کہ اس نے مذہب میں رخنہ ڈالا اور ہمارے سچے دین کی توہین کی۔ چونکہ وہ اپنے خیالات پر اب تک قائم تھا اس لیے قوم نے اس کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔ یہ شخص قیدیوں کی طرح گرفتار تھا، اس کے ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں پڑی تھیں اور جلّاد ننگی تلوار لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ جب وہ وقت قریب آیا کہ جلاد اس کا سر تن سے جدا کرے تو اس شخص نے سردارِ قوم سے یہ درخواست کی کہ میری آخری آرزو قوم سے صرف اتنی ہے کہ جو کچھ میں کہوں، بد نصیب قوم اس کو ٹھنڈے پٹیوں سن لے اور اس کے بعد جو فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل ہو۔ درخواست منظور ہوئی اور اس نے یہ کہنا شروع کیا:
“یہ وقت جو اب تھوڑی دیر بعد آنے والا ہے جب کہ یہ جسد خاکی اس ٹیلے پر تھوڑی دیر بعد تڑپ کر ٹھنڈا ہوجائے گا اور یہ سر جس میں جنون اور سودا نہیں، بد نصیب قوم کی سچی محبت بھری ہوئی تھی، برسوں کا ساتھ چھوڑ کر اس جسم سے علاحدہ ہوگا، میرے عقیدے کے موافق کبھی نہ کبھی آنے والا تھا مگر یہ موت وہ موت ہوگی جس پر ہزاروں زندگیاں قربان ہوں جب بھی یہ موت نصیب نہ ہو۔ اے بدنصیب اور گمراہ قوم! سچے مذہب میں جو کچھ آمیزش کی گئی ہے یہ بعض افراد کی نفسانیت ہے اور کچھ نہیں۔ مذہب کو مصنوعی لباس اور گوٹے ٹھپوں کی زیبائش سے بچاؤ اور جس طرح سیدھا سادہ نازل ہوا، اسی طرح اس کو دوسروں کے سامنے پیش کرو۔ اے فطرت الٰہی کے برخلاف یقین کرنے والی قوم! خدا کا عذاب تیرے ساتھ ہے اور وہ مقدس روحیں جن پر تم بہتان لگا رہے ہو، عنقریب تمہارے لیے بد دعائیں کرنے والی ہیں۔ عقل سے کام لو اور اس خیال سے کہ باپ دادا سے ہوتی آئی ہے عقیدہ کو مذہب میں داخل نہ کرو۔ اس احکم الحاکمین کا جمال جس کی حکومت لازوال ہے، مجھ کو محبت سے اپنی طرف بلا رہا ہے۔ چل چل اے جلاد! اپنا کام کر اور اس گمراہ قوم کا دل خوش کر دے”۔
اس تقریر پر وہ مجمع تو ٹھٹھے مار کر ہنستا رہا مگر غفیرہ پر ایک خاص حالت طاری ہوئی اور اس نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ اس سے بہتر تحفہ دنیا میں کوئی اور نہ ہوگا۔ جلاد کی تلوار کا گردن پر پڑنا تھا کہ اس کی زبان سے قوم کا لفظ نکلا۔ غفیرہ آگے بڑھی اور خون کا وہ پہلا قطرہ جو اس کی گردن سے نکلا، مٹھی میں لیا اور خیالستان کی طرف واپس آئی۔ رستہ بھر اس کے دل کی کہ عجیب کیفیت تھی، وہ یقین کر رہی تھی کہ دنیا میں اس سے بہتر شے اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ اس شخص کے خون کا پہلا قطرہ ہے جو زندگی جیسی نعمت کو قوم پر سے قربان کر گیا۔ غفیرہ اس اعتبار سے نہایت خوش نصیب تھی کہ اس کو آج زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ اتفاق سے محض یہ جشن نوروز کا دن تھا۔ اس کے پہنچتے ہی دیوار شق ہوئی اور غفیرہ نے آگے بڑھ کر وہ خون کا قطرہ پیش کیا۔
داروغہ: غفیرہ تیری محنت قابل داد ہے۔ بے شک تو نے بہت مصیبتیں بھگت کر یہ نادر شے فراہم کی۔ مجھے یہ کہنے میں عذر نہیں کہ یہ دنیا کی اچھی شے ہے، لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے بہتر شے دنیا میں موجود نہیں۔ جا پھر کوشش کر، اور اگلے سال پھر آ۔
(٤)
فصیل بند ہوگئی اور غفیرہ حسرت نصیب دل پہلو میں لیے شہر شہر گاؤں گاؤں میں خاک اڑاتی پھری، یوں تو رات دن ہی دنیا کے سینکڑوں کرشمے اس کی آنکھ سے گذرتے مگر یہ خیال کہ دنیا کی بہترین شے کیا ہے؟ اس کو سخت پریشان کر رہا تھا۔ پھرتی پھراتی وہ ایک روز ایسے مقام پر پہنچی جہاں ایک جوان اکلوتی بچی مرض الموت میں گرفتار تھی اور عزیزوں کا مجمع اس کے چاروں طرف تھا۔ موت خیالستان میں چاہے غیر معمولی شے ہو مگر اس دنیا میں تو کوئی لمحہ اس سے خالی نہ تھا۔ غفیرہ بھی یہ اچھی طرح سمجھتی تھی مگر ان عزیزوں کے چہروں پر کچھ ایسی حسرت اور مایوسی برس رہی تھی کہ وہ تھوڑی دیر وہاں ٹھٹکی، اس مجمع میں ایک عورت ایسی بھی تھی جس کو ہر چند لوگ سمجھا رہے تھے مگر اس کی آنکھ سے آنسو نہ تھمتا تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد جھکتی تھی اور مریضہ کے منہ کو بوسہ دیتی تھی۔ اس کے ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتی تھی اور اپنے ہاتھ اس کے منہ پر پھیرتی تھی۔ دفعتاً مریضہ نے درد سے بے تاب ہو کر ایک آہ کی اور ان آنکھوں سے جن میں سوا نا امیدی کے اور کچھ نہ تھا، اس عورت کو دیکھا اور دیکھ کر کہا: “بس اماں جان خدا حافظ”۔
مریضہ کی زبان سے یہ لفظ ایسے درد سے نکلے کہ سیدھے اس عورت کے کلیجے پر جا گرے، وہ چاہتی تھی کہ ضبط کرے مگر نہ کر سکی۔ بے اختیار ایک چیخ ماری اور کہا:
“ماں کی جان صالحہ! گو موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن میں وہ بد نصیب ماں ہوں جس نے اپنی بچی کو جو تمام عمر کی کمائی اور زندگی کا حاصل تھی، اپنے ہاتھ سے موت کے منہ میں دھکیلا اور وہ شخص جس کے نام سے ترے بدن پر رعشہ ہوتا تھا اور تو لرزتی تھی، اے صالحہ! میں نے زبردستی تیری شادی کر کے تجھے اس ظالم قصائی کے سپرد کر دیا، جس کے ظلم آج تیری جان لے کر بھی ختم نہ ہوئے۔ نہ معلوم مجھے اس دنیا میں ابھی کتنے روز اور جینا ہے مگر اب زندگی کا ہر لمحہ مجھ پر لعنت برسائے گا، دنیا کی ہر جاندار اور بے جان شے مجھ کو نفرت سے دیکھے گی۔ زمین کا وہ حصہ جس کے اوپر اور آسمان کا وہ ٹکڑا جس کے نیچے میں زندہ ہوں گی، بلند آواز سے کہے گا کہ یہی ہے وہ سنگ دل ماں جس نے ایک معصوم روح کو ناشاد اور نامراد دنیا سے رخصت کیا اور خدا کی ایک مخلوق اور اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو دیدہ و دانستہ دنیا کے عذاب میں پھنسا دیا۔ سنگدل ماں کی مظلوم و معصوم صالحہ، وہ صالحہ جو ماں کے حکم پر فدا اور اس کی خواہش پر قربان ہو رہی ہے۔ جس طرح میں تجھ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں، اسی طرح قیامت کے روز نادم اور شرم سار نہیں خدا کے حضور میں نافرمان گناہ گار حاضر ہوں گی اور اس عذاب کو بھگتوں گی جو میرے واسطے تجویز ہوگا۔ مگر وہی خدا شاہد ہے اس بات کا کہ مجھے یہ اندیشہ نہ تھا کہ یہ شقی القلب تجھ پر سوکن لا کر دنیا میں تیری یہ کچھ مٹی پلید کرے گا”۔
ان واقعات نے گو غفیرہ کے دل میں اس بیمار کی طرف سے ہمدردی پیدا کر دی لیکن یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہ تھی کہ غفیرہ اس کو دنیا کے عجائبات میں شمار کرتی۔ وہ آگے بڑھنے کا ارادہ کر رہی تھی کہ ایک نوجوان ایک ہم عمر لڑکی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے داخل ہوا، بیمار کے قریب آیا اور کہا:
“قیوم کی ماں! ابھی تک چوں کہ تو زندہ ہے، میں تجھ کو اس لیے طلاق دیتا ہوں کہ شرعاً و عقلاً تیرا کوئی مطالبہ مجھ پر نہ رہے”۔
لفظ طلاق نے غفیرہ کو بالکل حیران کر دیا اور اس نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اس سے زیادہ شقی مرد اور اس سے زیادہ مظلوم عورت دنیا میں کوئی نہ ہوگی۔ وہ قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ طلاق نے مریضہ پر ایک خاص اثر کیا۔ اس نے ایک نگاہ جس میں منت و سماجت شامل تھے اپنے شوہر پر ڈالی چونکہ زبان نے یاری نہ دی، اس نے اپنے ہاتھ بڑھائے، ان کو جوڑا اور آہستہ آہستہ زبان سے کچھ کہا، کھانسی اٹھی اور صالحہ اسی حالت میں شوہر کے آگے ہاتھ باندھے دنیا سے رخصت ہوئی۔
یہ آخری سانس جو دم واپسیں تھا، غفیرہ نے مٹھی میں لیا اور خیالستان روانہ ہوئی۔
پہلی دفعہ بھی نہ معلوم کیا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا تھا کہ ادھر غفیرہ خون کا قطرہ لے کر پہنچی اور ادھر فصیل شق ہوئی۔اب کے تو انتظار کرتے کرتے آنکھیں پتھرا گئیں اور راہ دیکھتے دیکھتے آندھ آ گئی مگر نوروز ہی نہ آیا۔ دن بھر آس پاس کے جنگلوں میں خاک چھانتی مگر جہاں جُھٹ پٹا ہوا اور وہ فصیل کی طرف لپکی۔ ایک دل اور بیسیوں وہم، ایک سر اور سینکڑوں خیال۔ وہ جانتی تھی کہ تقدیر بری طرح ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی ہے۔ کیا تعجب، مَیں بیٹھی کی بیٹھی ہی رہوں، آنکھ جھپک جائے اور وہ روشنی آ بھی جائے، چلی بھی جائے، جوئندہ یابندہ۔ آخر خدا خدا کر کے وہ وقت آیا۔ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ اس جنگل بیابان میں اگر کوئی پناہ تھی، تو کیکر کے درخت۔ ان ہی میں سے ایک کے نیچے غفیرہ کھڑی ٹکٹکی باندھے دیوار کو تک رہی تھی۔ اِدھر آسمان پر بجلی چمکی، اُدھر خیالستان کی روشنی نمودار، گرتی پڑتی بے تاب ہو کر لپکی۔ داروغہ موجود تھا۔ غفیرہ نے وہ سانس پیش کی۔ ساری رام کہانی سننے کے بعد داروغہ کا دل بھی پسیج گیا اور اس نے کہا:
“غفیرہ! افسوس تو آج کل ایسی زندگی بسر کر رہی ہے جہاں ایسے ایسے سنگ دل لوگ بستے ہیں۔ مجھے اس مظلوم لڑکی کا حال سن کر سخت صدمہ ہوا اور گو میں اس سانس کو عجائبات میں شمار کرتا ہوں، مگر غفیرہ! ابھی تو نے انسانی دنیا کو اچھی طرح نہیں پرکھا۔ جا ابھی اور دیکھ اور اگلے سال پھر آ”۔
یہ الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ دیوار بند، روشنی ندارد اور داروغہ غائب۔
اس وقت غفیرہ کی حالت قابل رحم تھی۔ امید نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور نا امیدی کی مجسم تصویر اس کے سامنے آ گئی۔ اس وقت اس کو یقین ہو گیا کہ اب خیالستان کا دیکھنا مجھے نصیب نہ ہوگا۔ میں اپنے وطن سے ایسی نہیں چھوٹی کہ پھر مل سکوں۔ میری جدائی ابدی ہے اور میرا فراق قطعی، بس یہی دنیا، ناپاک دنیا، انسانوں کی دنیا، خود غرضوں کی بستی میرا مسکن ہوگا اور اسی زمین میں خیالستان کو ترستی پھڑکتی کسی دن سرد ہو جاؤں گی۔
کچھ دیر انھیں خیالات میں محو رہنے کے بعد امید نے پھر اپنا نقشہ جمایا اور نا امیدی کا خوفناک منظر آنکھ سے اوجھل ہونا شروع ہوا۔
(5)
صبح کا سہانا وقت تھا، پرند اپنے سچے معبود کی تسبیح میں مصروف تھے کہ غفیرہ وہاں سے چلی، روز نیا دانہ تھا، نیا پانی۔ دن کہیں رات کہیں بسر کرنے لگی۔ کامل گیارہ مہینے غفیرہ نے یہ زندگی بسر کی۔ روز سینکڑوں اور ہزاروں واقعات اس کی آنکھ سے گذرتے مگر اب کوئی واقعہ اس کی رائے میں ایسا نہ ہوتا، ہزاروں اور لاکھوں چیزیں وہ صبح سے شام اور رات سے صبح تک دیکھتی، مگر کسی کو اس قابل نہ سمجھتی کہ خیالستان لے جائے۔ ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوتا ہے کہ غفیرہ پھرتی پھراتی ایسے گھر میں پہنچی جہاں ایک ضعیفہ حسرت و یاس کی تصویر بنی بیٹھی تھی اور اس کے گرد و پیش بہت سے آدمی مرد اور عورتیں ہشاش بشاش پھر رہے تھے۔ گھر آراستہ کیا گیا تھا اور گھر والے اجلے اور نئے کپڑے بدلے، اس طرح کاموں میں مصروف تھے گویا آج ان کو کوئی غیر معمولی خوشی ہے۔ چھوٹے سے بڑے تک، مرد سے عورت اور بچے سے بڈھے تک کوئی متنفس ایسا نہ تھا جو کسی نہ کسی کام میں مصروف نہ ہو۔ کچھ ڈولیاں اتریں، کچھ مرد آئے۔ ان سب کے چہرے شگفتہ اور شاداب تھے اور سوا اس ضعیفہ کے جو کسی خیال میں محو اور کسی یاد میں از خود فراموش تھی، ہر شخص خوشی کے نعرے لگا رہا تھا۔ آخر یہ گروہ متفق ہو کر اس ضعیفہ کے قریب آیا اور ایک شخص نے اس طرح کہنا شروع کیا:
“محترمہ! اس سے زیادہ خوشی کا وقت آپ کو اور کیا نصیب ہوگا کہ آپ اب تھوڑی دیر میں اس صورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں جس کو زمانے نے مدت العمر کے لیے آپ کی نظر سے اوجھل کر دیا تھا، کسے امید تھی کہ صغیر بھائی ہماری زندگی میں جلا وطنی کا زمانہ پورا کرکے ہمارے گھر میں واپس آئیں گے، ہماری آنکھیں اس صورت کو دیکھ لیں گی جس کا ہمارا مدتوں کا ساتھ تھا۔ یہ وقت آپ کے گم سم بیٹھنے کا نہیں ہے، رونے کے دن ہو چکے، اب ہنسنے کا وقت ہے۔ اب چار بجے ہیں، ساڑھے چار بجے کا وقت مقرر ہے۔ ہم استقبال کو جاتے ہیں۔ خدا صغیر بھائی کا آنا مبارک کرے اور آپ کی آنکھیں ان کے دیدار سے روشن ہوں”۔
ضعیفہ کی زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا، اس کی ٹکٹکی اس شخص کے چہرے پر تھی اور اس کی صورت اس کے دل کی اس حالت کو ظاہر کر رہی تھی جس میں نا امیدی کے سوا اب کچھ نہ تھا۔ یہ وہ عورت تھی جس کے اکلوتے بچے کو بے گناہ محض دشمنوں کی شرارت سے عمر بھر کے واسطے جلاوطن ہونا پڑا۔ اس مبارک لمحہ کے انتظار میں جب اس کی آنکھیں اس لال کی صورت دیکھیں، اس آنے والے وقت کی امید پر جب یہ اپنے کلیجہ کے ٹکڑے کو سینہ سے لگائے، اس کی جوانی بڑھاپے سے بدل چکی تھی اور پچیس برس کے فراق نے مامتا کی ماری کو دیوانہ بنا دیا تھا۔ اس کے آنسو خشک ہو چکے تھے اور ہاتھ پاؤں نے جواب دے دیا تھا۔ ہڈیاں اور ہڈیوں میں صرف ایک سانس کی حرکت باقی رہ گئی تھی۔ سروپا کا مطلق ہوش نہ تھا۔ دیوانہ وار ایک ایک کی صورت تک رہی تھی، بے گناہ بچہ کی صورت اور اس کی محبت آنکھوں کے سامنے تھی۔ لمحہ لمحہ کے بعد کلیجہ پکڑ لیتی اور ٹھنڈا سانس بھر کر آنکھیں بند کر لیتی۔ اس میں بولنے کی طاقت نہ تھی اور اس کی ترستی پھڑکتی روح جسم سے جدا ہونے کے واسطے صرف اس صورت کے دیکھنے کا انتظار کر رہی تھی جس کو خون جگر پلا کر بڑا کیا تھا اور جس کو مدتوں کلیجے اور سینے پر لٹایا اور سلایا تھا۔
دفعتاً مبارک سلامت کا غلغلہ بلند ہوا اور ۲۵ برس کے چھوٹے ہوئے بچے کے ہاتھ ماں کے گلے میں پڑے۔ مصیبت زدہ ماں نے اس لال کی صورت دیکھ کر ایک چیخ ماری۔ فرط محبت میں اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہوئے اور اپنے بے گناہ بچہ کو کلیجہ سے چمٹا کر نہ معلوم بے ہوش ہوئی یا مر گئی۔
آنسو کا وہ پہلا قطرہ جو اس ماں کی آنکھ سے اس وقت نکلا جب وہ بچہ کو کلیجہ سے لگائے تھی، غفیرہ نے مٹھی میں لیا اور خیالستان پہنچی۔ اس مرتبہ غفیرہ کو انتظار کی زیادہ تکلیف نہ اٹھانی پڑی۔ چار پانچ ہی روز ہوئے ہوں گے کہ ایک رات آسمان پر اس کی نگاہ تھی گو چاند نہ تھا مگر تارے کچھ ایسی دلفریبی سے کھلے ہوئے تھے کہ نیلگوں آسماں کا کونہ کونہ قدرت کی صنعت یاد دلا رہا تھا۔ یہ کچھ ایسا دلکش منظر تھا کہ غفیرہ بالکل محو ہو گئی اور اس کو وہ وقت یاد آیا جب وہ بچپن میں ماں کے ساتھ سبھا میں جاتی اور راجا بطور انعام اس کو ایک زمردیں قمقمہ دیتا۔ یہ خیال آتے ہی خیالستان اس کی آنکھ کے سامنے تھا اور عمر گذشتہ کی دلچسپیاں، عزیزوں کا جمگھٹا، برابر والیوں کی چھیڑ چھاڑ، ہم جولیوں، سہیلیوں اور بہنیلیوں کا ملنا جلنا اور سب سے زیادہ وطن کے در و دیوار۔ اس کے کلیجے پر چھریاں چل رہی تھیں، وہ ان ہی خیالات میں محو تھی کہ فصیل شق ہوئی اور غفیرہ سٹ پٹا کر لپکی۔
داروغہ: کوئی شک نہیں کہ تیرا انتخاب قابل داد ہے مگر غفیرہ ابھی کے دن اور کے رات۔ ابھی تو اس دنیا کی تہہ کو نہیں پہنچی۔ جا! جا! جا! غفیرہ جا اور پھر ڈھونڈنے جا۔
اس سے پہلے کہ غفیرہ کچھ بولتی، نہ داروغہ تھا نہ خیالستان۔ وہ سماں درہم برہم اور وہ صورت غائب!
چند گھنٹے ششدر و متحیر، مایوس و نا امید سر پکڑے بیٹھی رہی۔ مگر غفیرہ کے کلیجے میں ایسی آگ نہ لگی تھی جو کسی کے بجھائے بجھ جاتی۔ ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور جدھر منہ اٹھا، چل کھڑی ہوئی۔ شہر اور جنگل ایک کر دیا۔ دس ساڑھے دس مہینے تک خاک اڑاتی پھری۔ اس دنیا میں واقعات کی کیا کمی تھی مگر پچھلے واقعات نے اس کی کمر کچھ ایسی توڑ دی تھی کہ وہ غیر معمولی واقعات کو بھی معمولی ہی سمجھتی۔
(٦)
برسات کا موسم، ساون کا آخری دن اور رات کا وہ وقت تھا جب ساون بھادوں گلے مل مل کر رو رہے تھے۔ سات دن اور سات رات کی متواتر بارش نے خلق خدا کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ کچے پکے دھابے، ٹوٹے پھوٹے کھنڈلے تو کبھی کے مہندم ہو چکے تھے۔ اب بڑی بڑی محل سرائیں بھی اس طوفان کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ چاروں طرف سے دھواں دھوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سینکڑوں بندگان خدا اور بیسیوں پردہ نشین بیبیاں بھرے گھر چھوڑ چھاڑ سڑکوں پر آن بیٹھے۔ پوروا ہوا فراٹے بھر رہی تھی اور موسلا دھار مینہ دم بھر کو بھی ہلکا نہ ہوتا تھا۔
ٹھیک آدھی رات کا وقت تھا کہ دریا میں طغیانی شروع ہوئی اور آناً فاناً تمام سڑکوں پر پانی کے نالے بہنے لگے۔ عورتوں کی گریہ و زاری، مردوں کی چیخ پکار، بچوں کی واویلا بے سود تھی۔ ہوا کا شور، پانی کا زور لمحہ بہ لمحہ ترقی کر رہا تھا۔ ابھی رات کا پچھلا پہر شروع نہ ہوا تھا کہ سینکڑوں جانیں ظغیانی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ کیسا درد ناک سماں اور نازک وقت تھا کہ سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری بستی سمندر بن گئی اور سوتے جاگتے، روتے چیختے، اس سر زمین کے بسنے والے چشم زدن میں لقمۂ اجل ہو گئے۔ البتہ بچ گئیں تو وہ چند جانیں جو پہاڑی پر پہنچ گئیں اور دریا کی زد سے محفوظ رہیں۔
اس پہاڑی کے دامن میں ایک ٹوٹی سی جھونپڑی تھی جہاں ایک بد نصیب عورت اپنے چھ مہینے کے بچہ کو کندھے سے لگائے ٹہل رہی تھی۔ ہوا کے ایک جھکڑ نے جھونپڑی کا ایک حصہ اڑا دیا اور اب اس قیامت خیز وقت میں اس بد نصیب عورت کے پاس اگر کوئی معاون و مددگار تھا تو صرف شیر خوار بچہ۔
آدھی رات کا وقت تھا۔ ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی اور موسلا دھار مینہ پڑ رہا تھا۔ گو یہ جھونپڑی کچھ بلندی پر تھی، مگر دریا کی طغیانی نے اس کو بھی نہ چھوڑا اور پانی اس طرف بھی پہنچنا شروع ہوا۔ مال اور اسباب کا ہوش کسے تھا، لوگ اپنی جانوں ہی کو بچا لینا غنیمت سمجھ رہے تھے۔ چند مردوں کی ایک جماعت روشنی ہاتھ میں لیے اس جھونپڑی کے قریب پہنچی تو اس بدنصیب عورت کو با آواز بلند پکارنا شروع کیا کہ بچہ کو لے کر باہر نکل آئے اور پہاڑی پر پہنچ کر اپنی اور اس معصوم کی جان بچائے۔
پانی کمر کمر پہنچ چکا تھا اور کوئی دم جاتا تھا کہ دریا کی لہریں ان دونوں ماں بیٹوں کو کہیں کا کہیں پہنچا دیں کہ اس آواز نے عورت کو ہوشیار کیا۔ وہ بھاگنے کے واسطے دروازے تک آئی مگر غیر مردوں کی صورت دیکھ کر پھر اندر چلی گئی، پانی اب گلے گلے تھا کہ ایک دفعہ ان لوگوں نے اور آواز دی اور چلا کر کہا: “بدنصیب عورت یہ پردے کا وقت نہیں ہے، ان دو جانوں پر رحم کر، باہر نکل اور پہاڑی پر چڑھ جا۔”
عورت گھبرا کر آگے بڑھی، بچہ کندھے سے چمٹا ہوا تھا، باہر نکلنے کی کوشش کی مگر پردے کی اس قید نے جو زنجیر کی طرح پاؤں میں پڑی ہوئی تھی، اس کو ایک قدم نہ اٹھانے دیا۔ وہ اپنے دل سے یہ کہہ کر پھر اندر چلی گئی: “جان ایک روز جانی ہے مگر غیروں کی مدد سے جان بچائی تو کیا بچائی”۔ لوگوں نے ایک آواز اور دی اور اس کے بعد ناامید و مایوس پہاڑی پر چڑھ گئے۔ آناً فاناً پانی کی زبردست لہر نے جھونپڑی کو تاراج کردیا اور ماں بیٹوں کی چمٹی ہوئی لاشیں آنکھ سے اوجھل ہو گئیں۔
غفیرہ اس آسمانی عتاب کی کیفیت دیکھ کر لرز رہی تھی۔ جس وقت یہ عورت دوسری مرتبہ واپس ہوئی ہے اور پانی کی لہر نے اس کو غرقاب کر دیا ہے اس وقت دو خیال اس کے دل میں پیدا ہوئے:
1. کیا تعریف کے قابل ہے وہ عورت جس نے اپنی اور اپنے بچے کی جان قربان کردی مگر پردہ کی زنجیر کو نہ توڑا۔
2. افسوس کے قابل ہے وہ سرزمین جس کے بسنے والوں میں ایسی جہالت بھری ہوئی ہو کہ محض ایک قدیم رسم کو پورا کرنے کے واسطے جان تک کی پروا نہ کی۔
جس لہر نے ان دونوں کا خاتمہ کیا اس کے چند قطرے غفیرہ نے لیے اور خیالستان چلی۔
اس مرتبہ غفیرہ کی تقدیر نے اتنا سلوک تو کیا کہ عین وقت کے اوپر پہنچ گئی ورنہ پورے سال بھر سر ٹکراتی جب کہیں جا کر رسائی ہوتی۔ خیالستان کی سرحد میں داخل ہونا تھا کہ جان میں جان آ گئی۔ ابھی اس فرحت سے جی بھرنے بھی نہ پایا تھا کہ دیوار شق ہوئی اور غفیرہ اس خوشی اور فرحت کو چھوڑ چھاڑ ادھر لپکی اور اپنا ہدیہ پیش کیا۔
یہ کہنے کا شاید ہمیں حق نہ ہو کہ داروغہ انسان سے زیادہ سنگ دل تھا، مگر ہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان کتنا ہی سنگ دل ہوتا مگر بہت مشکل سے ممکن تھا کہ غفیرہ جیسی مظلوم، بے بس، بے کس کی منت و سماجت پر اس کا دل نہ پسیجتا۔
داروغہ جب تک سوچتا رہا، غفیرہ کی آنکھ سے آنسو گرتے رہے۔ وہ بے تاب تھی اور جانتی تھی کہ عنقریب اس زبان سے وہ لفظ نکلیں گے جو میری سال بھر کی محنت کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔
داروغہ نے آخر سر اٹھایا اور کہا:
“غفیرہ! تیرا انتخاب قابل داد مگر منزل مقصود ابھی دور ہے”۔
فقرہ ختم ہونے سے پہلے وہ سماں درہم برہم تھا اور غفیرہ کے سامنے وہ سرحد تھی جس کی دیواریں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ اس مرتبہ بد نصیب غفیرہ اپنی کامیابی سے بالکل مایوس ہوگئی اور یہ فیصلہ کر کے کہ اگر زندگی اس ارمان کو پورا نہیں کر سکتی تو موت اس تکلیف کا خاتمہ کر دے گی، وہ دریا کے قریب پہنچی۔
تاروں بھری رات اپنی دو منزلیں طے کر چکی تھی اور چودھویں رات کا چاند غفیرہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ لہریں پانی کے آغوش میں مچل مچل کر لوٹ رہی تھیں اور قریب تھا کہ غفیرہ ان لہروں سے لپٹ کر اپنی تکلیفوں کو خیر باد کہے کہ دفعتاً کامیابی کی امیدوں نے پھر اپنا نقشہ جمایا اور دل نے یہ صدا دی کہ اس فانی دنیا کے چند روزہ قیام میں ایسی ایسی بیویاں دیکھیں کہ آنکھیں آج تک ان کے صبر و استقلال کی داد دے رہی ہیں۔ وہ بھی عورتیں ہی ہیں جو مردانہ وار صدمات کا مقابلہ کر رہی ہیں اور ایسی موت مر رہی ہیں کہ لاکھوں زندگیاں ان پر ست سے قربان ہوں۔ اور میں بھی عورت ہوں کہ اس تھوڑی سی تکلیف میں زندگی سے بیزار ہو گئی۔ چلوں پھر چلوں اور اس وقت تک اپنی کوشش میں کمی نہ کروں جب تک تقدیر مجھ کو میرے پیارے وطن خیالستان میں پہنچا دے یا قدرت اپنی زبردست طاقت سے پیغام موت بھیج کر مجھ کو کوشش کے قابل نہ رکھے۔
(٧)
یہ سوچتے ہی غفیرہ اٹھی اور ایک طرف کو چل نکلی۔ تارے پھیکے پڑ چکے تھے، آسمان کروٹ بدل رہا تھا اور بادِ صبا کے جھونکے جھوم جھوم کر صبح کا پیغام لا رہے تھے۔ اس وقت غفیرہ کے دل میں ارمانوں کا دریا امنڈ امنڈ کر لہریں لے رہا تھا۔ مدتوں خاک اڑاتی رہی اور سر ٹکراتی پھری۔ نت نئے تماشے اور رنگ برنگ کے لوگ دیکھنے میں آئے، مگر کامل گیارہ ساڑھے گیارہ مہینے تک کوئی چیز ایسی نظر نہ آئی جو انتخاب میں آتی۔ ایک روز جب کہ آفتاب اچھی طرح بلند ہو چکا تھا، وہ پھرتی پھراتی ایسے گھر میں پہنچی جس پر ایک متوسط العمر عورت حکمران تھی۔ مامائیں اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں اور دو تین چھوٹے چھوٹے بچے انگنائی میں ٹہلتے پھر رہے تھے۔ اور ایک بڑی لڑکی جس کی عمر دس گیارہ برس کی ہوگی، میلے کچیلے کپڑے پہنے کونے میں بیٹھی کچھ سی رہی تھی۔ ماں کی محبت بھری نظریں لڑکوں پر پڑ رہی تھیں اور ان کے اچھلنے کودنے سے نہال نہال ہو رہی تھی۔ دروازہ پر انگور والا بولا، بیوی کے حکم سے ماما اسے بلا کر لائی، دونوں لڑکوں نے آدھ آدھ پاؤ انگور لیے اور کھائے۔ لڑکی کچھ دیر تک تو چپکی بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر کہنے لگی: “اماں جان! چھٹانک بھر مجھے بھی منگا دیجیے”۔ ماما لینے گئی۔ اب کاچھی کے پاس صرف پاؤ سیر انگور باقی تھے۔ ماما سے پہلے لڑکے پہنچے آدھ آدھ پاؤ تلوا کر لے آئے اور بہن کے سامنے بیٹھ کر ختم کر دیے۔
غفیرہ آگے بڑھنے کو تھی کہ اس کی نظر اس دس برس کی بچی پر پڑی جو حسرت سے اس توقع پر ماں کا منہ تک رہی تھی کہ شاید مجھے بھی ان دونوں کے ہاں سے کچھ مل جائے، مگر جب ماں نے اس کو معمولی سی بات سمجھ کر یہ کہہ دیا: “تجھے پھر لے دوں گی” تو غفیرہ ٹھٹکی۔ کھانے کا وقت آگیا تھا، ماما نے پتیلیاں آگے رکھیں، باہر سے رقعہ آیا کہ دو آدمیوں کا کھانا زیادہ بھیجنا۔ بیوی نے اٹھ کر کھانا نکالا، پہلے مردانہ میں بھیجا اور پھر لڑکوں کو دیا۔ اب سالن نہ بچا تھا۔ پتیلی سے روٹی پونچھ کر دونوں ماں بیٹیوں نے کھا لی۔ غفیرہ تعجب سے اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی، اس کی عقل کام نہیں کرتی تھی کہ کیوں اس لڑکی کی روزانہ زندگی ان لڑکوں کے مقابلے میں ایسی خراب ہے۔ حالانکہ یہ سب ایک پیٹ کے بچے اور ایک باپ کی اولاد ہیں۔ غفیرہ کو اس معمے کے حل کرنے کا شوق ہوا اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئی۔ دو بجے کے قریب لڑکی نہایت خوش خوش اٹھی اور ماں سے آکے کہا: “لیجیے اماں جان! میرا بٹوا تیار ہوگیا۔ دیکھیے چھریاں ٹھیک پڑی ہیں نا؟”
بٹوے کی تیاری اس بچی کے واسطے ہفت اقلیم کی بادشاہت تھی۔ اس کا دل باغ باغ تھا اور چہرہ اس ننھے سے دل کی اس خوشی کا پتا دے رہا تھا جو تین دن کی محنت کے بعد اس لڑکی کو حاصل ہوئی تھی۔ وہ اچھلتی ہوئی باہر آئی، لوٹا بھر کر وضو کیا اور نماز کو کھڑی ہو گئی۔ بڑا لڑکا جو تقریباً سات برس کا تھا، ماں کے پاس آیا، بٹوا دیکھ رہا تھا کہ لڑکی نے سلام پھیرا اور کہا: “اماں جان! ان کو بٹوا نہ دیجیے گا یہ خراب کر دیں گے”۔
ماں نے اس درخواست کا مطلق خیال نہ کیا۔ لڑکا بٹوا باہر لے گیا اور لڑکی نماز میں مشغول ہو گئی۔ لڑکے کے میلے کچیلے ہاتھوں میں بٹوے کی آب و تاب بالکل جاتی رہی۔ لڑکی نماز پڑھ چکی تو بہ منت کہا: “اماں جان! میرا بٹوا دلا دیجیے، دیکھیے خراب ہوگیا”۔ بہن کے اتنا کہتے ہی بھائی نے بٹوا انگنائی میں پھینک دیا جو تمام کیچڑ میں لت پت ہو گیا۔ ماں لڑکے پر خفا ضرور ہوئی مگر جب بیٹی سے یہ کہا کہ “بگڑتی کیوں ہے، اور بنا لیجیو” تو وہ ننھا سا دل جس میں چند لمحے پہلے خوشی کا دریا لہریں لے رہا تھا، اس فیصلے سے بالکل خشک ہو گیا۔ وہ مجبور اور معذور بچی جو ماں کے گھر پر چند روز کی مہمان تھی، جس کی اتنی مجال نہ تھی کہ منہ سے اف کر سکے، جس کا ماں کے سوا کوئی رفیق شفیق نہ تھا، جس کی تمام خوشی ایک آن کی آن میں ماں کی آنکھوں کے سامنے بھائی کے ہاتھوں کرکری ہوگئی، اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک کونے میں منہ لپیٹ کر رونے لگی۔ آنسوؤں کا وہ پہلا قطرہ جو اس کی آنکھ سے نکلا غفیرہ نے قبضہ میں کیا اور روانہ ہوئی۔
جھٹ پٹا وقت ہوگا کہ غفیرہ خیالستان کی سرحد میں داخل ہوئی۔ متواتر ناکامیوں نے اس کی ہمت اس قدر پست کر دی تھی کہ اندر پہنچنے کا خیال اب اس کو ایک یوں ہی سی امید تھی اور ایسی امید، جس میں روشنی کی جھلک کا نشان تک نہ تھا۔ اس وقت بھی دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ تمام سال کی محنت دم بھر میں برباد ہوگی مگر اس کے ساتھ ہی دل نے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ کوشش کی حد اور تلاش کی انتہا ہو چکی۔ اگر آج بھی داروغہ نے رخ نہ کیا تو ادھر کا رخ نہ کروں گی۔ متواتر کئی گھنٹے تک غفیرہ انھیں خیالات میں غلطاں و پیچاں رہی، یہاں تک کہ وقت مقرر آپہنچا۔ دیوار شق ہو گئی اور غفیرہ نے اپنا تحفہ داروغہ کے حضور میں پیش کیا۔
داروغہ: غفیرہ تیری کوشش قابل داد، تیری محنتیں لائق تعریف؛ تو نے انسانی دنیا کا خوب مطالعہ کیا اور ایسے ایسے تحفہ لائی کہ خیالستان ان پر فخر کر رہا ہے اور ہمارا عجائب خانہ اس بے نظیر انتخاب پر ہمیشہ ناز کرے گا، مگر غفیرہ تیرا قصور اس قدر سنگین ہے کہ میں اس تحفے کو بھی معافی جرم کے برابر نہیں سمجھتا۔ ہمت نہ ہار اور کوشش کر۔
ان الفاظ کے بعد کچھ بھی نہ تھا۔ وہ روشنی، وہ دیوار، وہ داروغہ، وہ تقریر ندارد۔ داروغہ کا آنکھ سے اوجھل ہونا تھا کہ غفیرہ نے اپنی ناکامی پر ایک چیخ ماری اور یہ کہتی ہوئی گر پڑی:
“خیالستان کی دیوارو! میرا آخری سلام قبول کرو اور مجھے اجازت دو”۔
عطر اور لخلخہ کے بجائے ببول کے پھول اور جنگل بیابان کی ہوا تھی۔ سب سے بڑا معالج آفتاب عالم تاب تھا جس کی حرارت غفیرہ کو ہوش میں لائی، اٹھی اور اٹھ کر آگے بڑھی۔
نا امیدی کی خطرناک صورتیں ہر طرف پیش نظر تھیں مگر غفیرہ خیالستان کی پری ہی تھی کہ پھر سنبھلی اور دل سے اس طرح مخاطب ہوئی:
“انسانی دنیا کی یہ مثل سننے کے بعد “جب تک سانس ہے اس وقت تک آس ہے” میرا مایوس ہونا میرے وطن خیالستان کی شان پر بٹہ لگا دے گا۔ چلوں پھر چلوں اور دنیا کا مطالعہ کروں۔ جو ہاتھ لگے، لاؤں اور کوشش میں کمی نہ کروں۔ وطن کی محبت سے بہتر مشغلہ اور ناکامیابیوں کے بعد کامیابی کی کوشش سے بہتر کام اور کیا ہو سکتا ہے؟”
(٨)
اتنا کہہ کر غفیرہ روانہ ہوئی۔ نیا دانہ، نیا پانی، آج یہاں، کل وہاں، تقریباً تمام دنیا چھان ڈالی۔ نت نئے سوانگ دیکھتی اور طرح طرح کے معاملے آنکھ کے سامنے گذرتے، مگر وہ ان کو معمولی سمجھ کر ٹال دیتی۔ ایک دن کا ذکر ہے آدھی رات کا وقت ہوگا کہ وہ ایک ایسے میدان میں پہنچی جو کسی وقت عالیشان محلوں سے راستہ تھا۔ اور جہاں ریاست حسین پور کا مشہور سردار اپنی محبوبہ بیوی گیتی آرا بیگم کے ساتھ گیتی محل میں اپنا وقت آرام و اطمینان سے بسر کرتا تھا۔
آج انقلاب زمانے نے حسین پور کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ محلوں کی جگہ خاک اڑ رہی تھی اور گیتی محل پھونس کی ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی دنیائے ناپائدار کی بے وفائی کی ایک ایسی تصویر تھے جس کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ جس شحض کے ادنی سے اشارے پر سینکڑوں ہزاروں آدمی جانیں لڑا دینے کو تیار تھے، آج لق و دق جنگل میں اپنی مصیبت ناک زندگی کے دن بسر کر رہا تھا۔ خارستان کے تنکے اور درختوں کے پتے اس کا بچھونا تھے اور میدان کا گھاس پھونس اس کا اوڑھنا۔ وہ بیگم جو والیِ سعید آباد سے مشہور رئیس کی بیٹی تھی، آج اپنا تمام مال و زر شوہر پر لٹا کر دو دو دانوں کی محتاج تھی۔ جنگل کے پھل اس کی خوراک تھے اور چشموں کی روانی اس کی پیاس بجھاتی تھی۔ دونوں میاں بیوی علی الصباح نکل جاتے، جنگلی میوے چن کر لاتے اور اپنی جھونپڑی میں پتوں کا دسترخوان بچھا کر پیٹ بھر لیتے۔ فرش فروش کے بدلے گو ان کے ہاں پیپل کے پتے ہی تھے۔ مگر یہ جھونپڑی محبت کے ایسے پھولوں سے مہک رہی تھی جس پر آسمان اور زمین درود پڑھ رہے تھے۔
چاندنی رات میں جس وقت یہ جوڑا جو انسانی زندگی کے اصل مقصد کا ایک نمونہ تھا، دریا کے کنارے بیٹھا ہوا ہوا کے ترانے سنتا اور فانوس محبت کی روشنی میں ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھ دیکھ بشاش ہوتا تو چاروں طرف سے ان پر مرحبا کے نعرے لگتے، درختوں کے پتے ان کو مبارک باد دیتے اور چشموں کا پانی ان کے خلوص کے گیت گاتا۔
غفیرہ جس وقت یہاں پہنچی، آدھی سے زیادہ رات گذر چکی تھی۔ سردی کی شدت کی پڑ رہی تھی، چاند نکلا ہوا تھا اور یہ دونوں میاں بیوی ایک پھٹی سی چادر میں، جو ان کی کل کائنات تھی، سکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔ سردی کی اذیت کا احساس ان کو بالکل نہ تھا۔ چاند کی روشنی میں ان کی محبت بھری نظریں خلوص باہمی کی سچی قدردانی کا پتہ دے رہی تھیں۔ اس وقت زندگی کا کوئی فکر ان کے دماغ میں نہ تھا، نہ ان کو صبح کے کھانے کی سوچ تھی، نہ کڑاکے کی سردی کا غم، نہ عزیزوں کے ملنے کی توقع تھی، نہ غیروں کے حسد کا کھٹکا، دونوں اپنی حالت میں مگن تھے اور باہمی محبت کے سوا ان کے دلوں میں کسی اور چیز کا گذر نہ تھا۔
پچھلا پہر ہوگا کہ شوہر کو بخار چڑھا اور پیاس کی شدت میں اس نے اپنی محبوبہ کو پانی پلانے کی تکلیف دی۔ فرماں بردار بیوی اور عاشق زار بیگم دریا کی طرف چلی۔ پانی کی لب دریا سے بھری اور واپس ہوئی۔ دفعتاً آسمان نے رنگ بدلا اور باد و باراں کے زبردست طوفان نے عاشق زار بیوی کے پاؤں پکڑ لیے۔ آناً فاناً پھیلی ہوئی چاندنی اندھیرے گھپ سے بدل گئی۔ ہوا کا جھکڑ، مینہ کا طوفان، بادل کی کڑک، بجلی کی چمک نازک دل کو دہلانے لگی مگر حقیقی محبت کا سرشار دل ان سختیوں کو جھیلتا ہوا جھونپڑی کی طرف لے جا رہا تھا کہ اولوں کی باڑ نے محبت کی دیوی کو زخمی کر دیا۔
سہارے کے واسطے کوئی جگہ بہ ظاہر نہ تھی مگر بہادر درخت چاروں طرف سے اپنی سپر لیے کھڑے تھے۔ ہر چند اس قیامت خیز طوفان نے پاؤں پکڑے، مگر دل مجروح انتظار شوہر کے خیال سے تھرا اٹھا اور یہ جنت کی حور آسمانی اولوں کو سر پر لیتی جھونپڑی کے قریب پہنچی۔ اولوں کی متواتر باڑ نے سر اور سینہ زخمی کر دیا تھا۔ خون کے فوارے جسم سے جاری تھے مگر وہ پانی جو ہاتھ میں موجود تھا اس کی حفاظت جان کے ساتھ تھی۔ جھونپڑی میں داخل ہونا چاہتی تھی کہ ایک بھاری اولے نے سر کو پاش پاش کر دیا۔
مریض شوہر بخار میں بے ہوش تھا۔ اس کو مطلق خبر نہ تھی کہ آسمان کیا رنگ دکھا رہا ہے، کہ فرماں بردار بیوی عاشق زار بیگم اور غم گسار عورت نے پانی کے قطرے حلق میں ٹپکائے، مرد نے آنکھ کھولی۔ ابھی کچھ بات نہ کرنے پایا تھا کہ یہ وفا شعار بیگم جس کا سر پاش پاش اور بدن زخمی ہو چکا تھا، شوہر کے سامنے دنیا سے سدھار گئی۔
بدنصیب منکوحہ کا یہ آخری سانس غفیرہ نے اپنی مٹھی میں لیا اور خیالستان روانہ ہوئی۔
(٩)
کوشش کی انتہا اور ناکامی کی ایک حد ہوتی ہے۔ غفیرہ پرستش کے قابل عورت تھی کہ مردہ سے بدتر ہو گئی اور جس دھن کے پیچھے پڑی اس سے ہاتھ نہ اٹھایا۔ کاش ہمارے ہندوستانی عورتیں غفیرہ کے واقعات سے اتنا ہی سبق سیکھیں کہ جو ارادہ کریں، اس میں استقلال اور ثابت قدمی کو ہاتھ سے نہ دیں۔ رات آدھی سے بھی کم گذری تھی کہ غفیرہ خیالستان پہنچی۔ وہ اپنی تقدیر سے مایوس ہو چکی تھی اور اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ اب مجھے خیالستان کی بہار دیکھنا نصیب نہ ہوگی، پیارا وطن مجھ سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ چکا۔ مگر جب تک زندہ ہوں کوشش میں کمی نہ کروں گی۔ سچ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا مطالعہ بھی میرے واسطے خیالستان سے کم دلچسپ نہیں۔
غفیرہ ان ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھی کہ دیوار شق ہوئی اور غفیرہ نے وہ سانس پیش کیا۔
داروغہ: آ آ غفیرہ! اندر داخل ہو، آخر تو نے گوہرِ مقصود پا لیا۔ بے شک! بے شک! وہ دنیا جس میں ایسے ایسے لوگ بستے ہوں، داد دینے کے قابل ہے۔ تیرا قصور معاف۔ تیرا وطن تجھ کو مبارک ہو۔ خیالستان اس سانس پر ہمیشہ ہمیشہ ناز کرے گا اور ہم کہ انسان نہیں ہیں، محبت کے اس پھول کو سر آنکھوں پر رکھیں گے۔ آگے بڑھ غفیرہ! کہ میں تیرے قدموں کو بوسہ دوں جو انسانی دنیا سے ایسا بے نظیر تحفہ لائے۔

 

علامہ راشد الخیری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
علامہ راشد الخیری کا ایک اردو افسانہ