مستقر جاوداں چراغوں کا
چشمِ نم آستاں چراغوں کا
راز داروں کے درمیاں آباد
دل مرا راز داں چراغوں کا
اُس کی شفّاف جِلد کے نیچے
سلسلہ ہے رواں چراغوں کا
بام و در میں ہوا ظہور پذیر
رنگ کچھ مہرباں چراغوں کا
دل وہاں منتظر ہے اور یہاں
ہو رہا ہے زیاں چراغوں کا
کربلائی نگاہ سے کامیؔ
اُٹھ رہا ہے دھواں چراغوں کا
سید کامی شاہ