پربتوں کی چوٹی پر ‘ شام ہونے والی ہے
آسماں پرندوں اُور بادلوں سے خالی ہے
ساتھ چلنے والوں سے گفتگُو معَطّل ہے
راستے کے پیڑوں نے ‘ خامُشی بڑھا لی ہے
رات کی کہانی میں اُس بدن کی تنہائی
راز داں نہ بنتی تھی ‘ راز داں بنا لی ہے
دُور تک چراغوں کی اِک قطار رکّھی ہے
مَیں نے اپنے حِصّے کی روشنی اُٹھا لی ہے
فیصلؔ ہاشِمی