کیا الجھنا کسی کہانی میں
گم رہو اپنی بیکرانی میں
زندگی زخم چاٹتے گزری
اے زمیں تیری میزبانی میں
مار دیتی ہیں پر کشش آنکھیں
مبتلا کر کے خوش گمانی میں
کن مراحل سے ہو کے پہنچا ہوں
لا مکانی میں ، لا زمانی میں
کچھ خطرناک موڑ آئیں گے
آگے بڑھتی ہوئی کہانی میں
پارہ پارہ ہوا صحیفہ ء جاں
جیسے ہوتا ہے رائیگانی میں
میرے اطوار سے ٹپکتی تھی
اک بزرگی سی نوجوانی میں
چند نامہربان رشتے ہیں
آجکل میری پاسبانی میں
اب تو کچھ بول دو خدا کے لئے
مارے جاؤ گے بے زبانی میں
انتہا تک پہنچ گیا ظالم
مہربانی ہی مہربانی میں
اے سمندر کو گھورنے والے
تیرا کیا کھو گیا ہے پانی میں
ان لبوں سے ادا ہوئے الفاظ
انقلاب آ گیا معانی میں
کچھ کمی سی دکھائی دیتی ہے
خاکداں تیری خاکدانی میں
چل رہا ہے نظام دو عالم
عشق والوں کی حکمرانی میں
سید انصر