مری جاں !
سمندر کسے راس آیا ہے اب تک کہ جو مجھ کو آتا
زبوری دنوں میں
مجھے نظم لکھنی تھی لیکن میں چپ ہوں
محبت کی شمشیر جو میرے سینے کے اندر گڑی ہے
یہ ان داستانوں سے جا کر جڑی ہے
جو پانی میں گم ہیں
یہ پانی جسے رنج ہے تیری آنکھوں کی بے حرمتی کا
یہ پانی جسے تیرے پیروں کو چھو کر شفا مانگنی تھی
تجھے اک خرابی کی صحبت میں پا کر
پرے ہٹ گیا ہے
تجھے کچھ خبر ہے ؟
بنامِ محبت ترے ساتھ لوگوں نے کیا کر دیا ہے ؟
تری شام اردن کی صبحوں کا نم ہے
تو وہ ہے
جسے نینوا کے قبیلوں کی شاہی بھی کم ہے
تو حسنِ عدم ہے
تو لڑکی نہیں ہے
مری جاں عَلَم ہے !
یہ غم کوئی کم ہے ؟
ترے موڈ کی بادشاہی سے کتنے تہی دست منگتوں نے خیرات پائی
کوئی تیرا خوشبو سے لبریز دن لے اڑا تو کسی نے سخن سے بھری رات پائی !
تجھے کچھ پتہ ہے ؟؟
کہ تو نے محبت میں جو کچھ بھی بولا اسے کاٹ کر کتنی نظمیں بنی ہیں ؟
وہ کیسے تہی تھے کہ جو تیرے ملنے سے یکسر غنی ہو گئے ہیں
وہ بے کیفیت ، جن کے کنگال کاسوں میں کچھ بھی نہیں تھا ،دھنی ہو گئے ہیں
ترے ساحلوں سے ذرا دور میں تیرے نقشِ کفِ پا کے پیچھے کھڑا ہوں
یہی سوچتا ہوں
کہ آگے بڑھوں تیرے شانوں کو چھو کر تجھے یہ بتاؤں
کہ تو اہلِ دنیا کی حالت نہیں ہے
جو سب کو روا ہو
مری جاں !
تجھے روشنی کے جزیروں کی اجلی دعا ہو
ترے ساتھ کوئی بھی ہو یا نہیں ہو مگر اک خدا ہو !!
علی زریون