ہے ذرا سا سفر ، گزارا کر
چند لمحے فقط گوارا کر
دھوپ میں نظم بادلوں پر لکھ
کوئی پرچھائیں استعارا کر
چھوئی موئی کی ایک پتی ہوں
دور ہی سے میرا نظارہ کر
آسمانوں سے روشنی جیسا
مجھ پہ الہام اک ستارا کر
پہلے دیکھا تھا جس محبت سے
اک نظر پھر وہی دوبارہ کر
کھو نہ جائے غبار میں نیناں
مجھ کو اے زندگی پکارا کر
فرزانہ نیناں