- Advertisement -

جو رہ گئے ہیں وہ سارے نقاب اُتریں گے

حافظؔ زین العٰابدین کی ایک اردو غزل

جو رہ گئے ہیں وہ سارے نقاب اُتریں گے
اور اُن کے ساتھ حیا اور حجاب اُتریں گے

مجھے پتا ہے کوئ معجزہ نہیں ہو گا
نہ میری آنکھ لگے گی نہ خواب اُتریں گے

کہاں سے ڈھونڈ کے لاتے سکون کی گھڑیاں
جب آسمان سے ہر سُو عذاب اُتریں گے

جو سوچنا بھی نہیں تھا وہ دیکھتے ہیں ابھی
نجانے کب یہ نظر کے سَراب اُتریں گے

طلوعِ سحر اُداسی ہے تیری آنکھوں میں
جھکا نظر کہ ترے آفتاب اُتریں گے

 

حافظؔ زین العٰابدین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
حافظؔ زین العٰابدین کی ایک اردو غزل