گل برگ سے ہیں نازک خوبی پا تو دیکھو
کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو
ہر بات پر خشونت طرزجفا تو دیکھو
ہر لمحہ بے ادائی اس کی ادا تو دیکھو
سائے میں ہر پلک کے خوابیدہ ہے قیامت
اس فتنۂ زماں کو کوئی جگا تو دیکھو
بلبل بھی گل گئے پر مرکر چمن سے نکلی
اس مرغ شوق کش کی ٹک تم وفا تو دیکھو
طنزیں عبث کرو ہو غش رہنے پر ہمارے
دو چار دن کسو سے دل کو لگا تو دیکھو
ہونا پڑے ہے دشمن ہر گام اپنی جاں کا
کوچے میں دوستی کے ہر کوئی آ تو دیکھو
پیری میں مول لے ہے منعم حویلیوں کو
ڈھہتا پھرے ہے آپھی اس پر بنا تو دیکھو
ڈوبی ہے کشتی میری بحر عمیق غم میں
بیگانے سے کھڑے ہو تم آشنا تو دیکھو
آئے جو ہم تو ان نے آنکھوں میں ہم کو رکھا
اہل ہوس سے کوئی اودھر کو جا تو دیکھو
ہے اس چمن میں وہ گل صد رنگ محو جلوہ
دیکھو جہاں وہی ہے کچھ اس سوا تو دیکھو
اشعار میر پر ہے اب ہائے وائے ہر سو
کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو
میر تقی میر