فرصت کہاں خطوط پڑھوں آج پیار سے
اب خیریت بتایا کرو یار تار سے
دلی کے تاج و تخت کا ایک دعویدار تو
داخل تھا اسپتال میں پانی کی مار سے
نیتا کی شان دیکھ اسے ووٹ یوں ملے
مردے نکل کے آ گئے اپنے مزار سے
ریلی نکالنے کا ارادہ جہاں کیا
مجھ کو زکام ہو گیا ہلکی پھوار سے
میں ریل روکنے کے لیے تیرے ساتھ ہوں
فرصت اگر مجھے ملی سردی بخار سے
میں ڈر رہا ہوں مجھ کو بھی غالب کہیں گے لوگ
یہ گھر چلا کرے گا ہمیشہ ادھار سے
بشیر بدر