واپسی
اذیت اور اس سکوں
دونوں کو ہی دل کھول کے میں نے لٹایا ہے
ہزاروں بار ایسا بھی ہوا ہے
دوستوں کی رہنمائی میں
پھرا ہوں مارا مارا
شہر کی آباد سڑکوں پر
کبھی ویران گلیوں میں
کبھی صحراؤں کی بھی خاک چھانی ہے
مگر اس بار جانے کیا ہوا مجھ کو
نمائش کی دکانوں میں
سجا کر خود کو گھر واپس چلا آیا
ابھی دروازہ میں نے کھٹکھٹایا تھا
کہ گھر والوں نے کینہ توز نظروں سے مجھے دیکھا
جب ان کی آنکھوں میں،
کوئی رمق پہچان کی میں نے نہیں پائی
تو الٹے پیروں واپس لوٹ آیا ہوں
اور اب یہ سوچتا ہوں
دوستوں کی رہنمائی میں
انہیں گلیوں میں صحراؤں میں جا کر
اپنے قدموں کے نشاں ڈھونڈوں
آشفتہ چنگیزی