اِک خلش ایک تشنگی سی ہے
زندگی میں کوئی کمی سی ہے
میری حالت ترے بچھڑنے سے
ایک معذور آدمی سی ہے
جانے دِل چاہتا ہے کیا کیا کچھ
مل کے بھی تجھ سے بے دلی سی ہے
لگ رہا ہے کہ بام پر ہیں وہ
اِس لیے رات چاندنی سی ہے
چل کسی میکدے مجھے لے چل
اے شبِ ہجر بے کلی سی ہے
روز میں دیکھتا ہوں جی بھر کے
تیری تصویر دیدنی سی ہے
حُسن کا انفراد ہے تجھ سے
حور سی ہے نہ تو پَری سی ہے
ساحل سلہری