- Advertisement -

بھٹوں پر کام کرنے والے مسیحی مزدوروں کے نام

ایک اردو افسانہ از سید محمد زاہد

بھٹوں پر کام کرنے والے مسیحی مزدوروں کے نام

شدید گرمی جھلسائے دے رہی تھی۔ لو چل رہی تھی۔ گاڑی آ کر نہر کے کنارے درختوں کے سائے میں رکی۔ چھوٹی سی نہر بھٹے کے پاس سے گزرتی تھی۔ گاڑی کو دیکھتے ہی بھٹے پر کام کرنے والی مزدور عورتیں نہرسے نکل کراپنی ڈھیری کی طرف بھاگ گئیں۔ وہاں بیٹھ کر انہوں نے مٹی کو گوندنا شروع کر دیا۔ سفید گاڑی سے صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے شاہ صاحب نیچے اترے۔ گاڑی دیکھتے ہی بھٹے کا مالک چوہدری بھلوال بھی بھاگا چلا آیا۔ اتنے میں نہر کے اندر موجود آخری لڑکی بھی شرماتی لجاتی باہر نکل آئی۔

کچھ دیر سہمی سہمی بازو بدن کے سامنے رکھ کرجھکی کھڑی رہی، پھر بھاگ اٹھی۔ آغاز شباب میں قدم رکھتی ہوئی یہ الہڑ دوشیزہ پروا کی طرح لہراتی ہوئی ان کے پاس سے گزر گئی۔ بھیگے باریک کپڑوں کی لہروں میں کندن سونا دمک رہا تھا۔ بھاگتے ہوئے اس کے لمبے بالوں کی کالی گھٹا سے ٹوٹ کر پانی برس رہا تھا۔ تپتی مٹی پر پانی کی بوندیں گرنے سے کچی کلیوں کی مہک ہر طرف پھیل گئی۔

”شاہ جی! اپنے منو پتھیرے دی بیٹی انم اے۔ خود تو مر گیا ہے، پچھے اے ملوکنی (کمزور لڑکی) اوراک مریل جئی سوانی (بیوی) چھوڑ گیا اے۔“ منصورشاہ کو مبہوت کھڑا دیکھ کر چوہدری بولا۔

آواز سن کر منصور چونک گیا۔ کچھ دیر وہ خاموش کھڑا رہا پھر شرمندہ سا بھٹے کی طرف چل پڑا۔ بھلوال بھی پیچھے پیچھے چلتے ہوئے بولتا جا رہا تھا۔ ”اوہ مردود صبح منہ ہنیرے ای چرچ کی طرف چلا جاتا تھا۔ اک دن رستہ میں ہی کسے نے قتل کر دیتا۔ قاتل نے جنت دے شوق چے میرے چار لاکھ نوں پھوک دیتا۔“ (آ گ لگا دی) ۔ منصور کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھ کر وہ تھوڑی دیرخاموش رہا۔ پھر کہنے لگا ”گوری چٹی چمڑی اے، منو دی نیں لگدی۔“ منصور نے غصے سے اس کی طرف دیکھا تو چپ ہو گیا۔

منصور نیم کے جھنڈ کے نیچے کھجور کے بان کی موٹے پایوں والی کھاٹ پربیٹھ گیا۔ وہ منہ گھما کرمتجسس نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ ”چوہدری، اب تمہارے بھٹے کی اینٹ پلی (کم پکی ہوئی) بھی ہوتی ہے اور چھوٹی بھی۔ ایسے نہیں چلے گا، اس کا سائز بھی صحیح کرو اور پکائی بھی۔“

”شاہ جی اب شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔“ بھلوال نے جواب دیا اور ساتھ ہی منشی کو ڈانٹنا شروع ہو گیا ”اوئے منشی ان حرام خور پتھیروں کو کہو کہ گھانی ٹھیک کیا کریں اورصحیح طرح گوئی کمائی ہوئی مٹی دیاں اینٹاں تھاپا کریں۔ اپنے سانچے وی نئے بناؤ او چل چل کر گھس گئے نیں۔“

پھر منصور شاہ کی طرف منہ کر کے کہنے لگا ”شاہ جی! ہن شکایت دا موقع نیں دوں گا۔ شاہ جی ہمارے بھی مسئلے ہیں۔ پتھیریاں دے جوان بچے شہراں چے نوکری کرن چلے جاندے نیں۔ جوان لڑکیاں گھراں چے کم کرن لگ پیندیاں نے۔ بڈھی عورتاں تے کمزور مرد ای بچدے نیں۔ ان کو بہوتا دبائیں تے بیمار پڑ جا ندے نیں تے کام رک جاندا ہے۔ اگر مر مرا جان تے لکھاں روپے بھی ڈوب جاندے نیں۔“

منصور شاہ اس کی بات کو سنی ان سنی کر کے ادھر ادھر دیکھتا جا رہا تھا۔

”بھلوال چوہدری، کل سے میں ان درختوں کے جھنڈ کے نیچے اپنا کام شروع کروں گا۔ میں آج کل بھٹہ مزدوروں پر کام کر رہا ہوں۔ ان کے کام اور مسائل پر کچھ تصویریں بنانا چاہتا ہوں جن کی نمائش میں بانڈڈ لیبر کی ورکشاپ میں کروں گا۔“

بھلوال نے یہ سب سن کربرا سا منہ بنا لیا۔
”او ہاں! مجھے بھی گھر میں کام کے لئے ایک عورت کی ضرورت ہے۔ کوئی ہو تو بھیج دو۔“
”جی شاہ جی! اے تو کوئی مسئلہ ای نیں، کل ای پہنچ جائے گی۔“

بھلوال منصور شاہ کو گاڑی میں چھوڑ کر واپس آیا تو منشی کو کہنے لگا ”کل انم نوں شاہ دے گھربھیج دینا۔“ ساتھ ہی بائیں آنکھ دبا کر بولا ”ہن شاہ گھر بیٹھ کے ای مورتاں بنایا کرے گا۔ پتھیریاں دے مسئلے مسائل وی مک جان گے تے اج توں ساڈیاں اٹاں وی پکیاں ہو جان گئیاں (آئندہ سے ہماری اینٹیں بھی پکی ہو جائیں گی) ۔“

منصور شاہ بہت اچھا مصور تھا۔ وہ نوے کی دہائی میں سینٹ پیٹرز برگ سے فائن آر ٹس میں گریجویشن کرنے کے بعد فرانس چلا گیا تھا۔ وہاں اس نے ایک گوری سے شادی کرلی۔ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی کم ہی تھی۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھی، چودہ سالہ کرن جس کو وہ فرانس جیسے آزاد ملک میں رکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ باپ کی وفات کے بعد اسے اپنا کاروبار سنبھالنا تھا۔ وہ واپس آیا تو گوری نے ساتھ آنے سے انکار کر دیا۔

موٹی موٹی کالی سیاہ آنکھوں کو مٹکاتی، ملاحت بھری انم، اگلے دن صبح اس کے سامنے کھڑی تھی۔ سانولے سلونے حسن نے اس کی آنکھوں کوخیرہ کر دیا۔ بہت سمجھدار اور تیز لڑکی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں اس نے تمام گھر سنبھال لیا۔ پرانی بوڑھی ماسی کے ساتھ بھی اس کی خوب بن رہی تھی۔ کرن کا کام وہ بہت محنت سے کرتی۔ فارغ وقت اسی کے کمرے میں بیٹھی کتابیں دیکھتی رہتی۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے منصور کو کہا کہ وہ بھی پڑھنا چاہتی ہے۔

میٹرک وہ باپ کے مرنے سے پہلے ہی کر چکی تھی۔ اگلے چار سال وہ گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ پڑھتی بھی رہی۔ اب وہ یونیورسٹی میں جا چکی تھی۔ اس نے کاروبار کاحساب کتاب بھی سنبھال لیا۔ گھرکے اندر ہی ایک کمرہ دفتر کے طور پر تیار کر لیا۔ گھریلو کام کاج کے لئے بھٹے سے ایک لڑکی اور اپنی ماں کو لے آئی۔ انم جب ماں کو لائی تو بھلوال کو اعتراض ہوا۔ اس نے اپنی رقم کا مطالبہ کیا اور چار لاکھ منصور شاہ کو ادائیگی کرنا پڑی۔

وہ خود سارا دن صرف کرن اور منصور کے کام کرتی۔ اب تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ گھر کی مالکن وہی ہے۔ منصور اور انم میں زمین آسمان کا فرق تھا لیکن آہستہ آہستہ وقت کے سمندر کی لہریں انہیں بہا کر ایک دوسرے کے قریب لاتی جا رہی تھیں۔ اب یوں لگتا تھا کہ دونوں کے مسائل اور شاید آرزؤں کا ساحل بھی ایک ہی ہے۔

ایک بات منصور شاہ خصوصی طور پر محسوس کر رہا تھا کہ انم نے اب چرچ جانا بہت ہی کم کر دیا تھا۔ اس کا ایک رشتہ دار لڑکا کرسچن ادارے میں پادری بننے کا کورس کر رہا تھا وہ اس کو ملنے اکثر آ جایا کرتا تھا۔ اب اس کا آنا جانا بھی کم ہو گیا تھا۔ کرسمس آئی، منصور نے اسے شاپنگ کرنے کا کہا تو انکار کر دیا۔ وہ حیران رہ گیا۔ بازار سے اس کے لئے سرخ میکسی لے کر آیا۔ ”آپ لائے ہیں، میں ضرور پہنوں گی لیکن کرسمس۔“ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔

کرسمس کی ٹھنڈی ٹھار صبح، ناشتہ کی ٹیبل سجا کر، وہی میکسی پہنے پاس کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ڈائننگ ہال میں مہک چھائی ہوئی تھی مانو گلاب لان میں نہیں کمرے میں کھلے ہیں۔ ویلوٹ کی میکسی نہیں کلغے کے مخملی پھول تھے جو دوڑتے بھاگتے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ اس سے نظریں چرا رہی تھی اور منصور بھی زمین کی طرف ہی دیکھتا جا رہا تھا۔ زمین جو کہ مہندی لگے گورے پیروں کے بوسے لے رہی تھی۔ پاؤں مہندی رچنے سے کیا سے کیا بن گئے تھے۔ گورے پاؤں جو کہیں ٹکتے ہی نہیں تھے۔ اس کی نظریں اچنبھے سے کومل پیروں کو تکے جا رہی تھیں۔

”آپ کھا نہیں رہے؟“ آواز سن کر وہ چونک گیا۔

نظریں اٹھا کراس کی چھب دیکھی۔ کیا روپ تھا؟ آج وہ موہنی صورت دیکھ کر سدھ بدھ کھو بیٹھا اورٹکٹی باندھے اسے تکنے لگا۔ مہتاب مکھڑا، بلور سے بازو، کمر پتلی پتلی اور گوشت سے بھرا بھرا چوڑا کوکھا۔ ابھری چھاتیوں کی دھک دھک ناقوس کلیسا کی طرح بج کراسے مست کرر ہی تھی۔ منصور بالکل موہت ہو گیا۔ بھول گیا کہ وہ سید ہے اور پچپن سالہ بوڑھا بھی جبکہ انم کرسچن اور بائیس سالہ جوان بھی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا تو وہ اس کی طرف بھاگی آئی۔

کئی دنوں تک مخمل کی طرح کی نرم ریشم سی ملائم انم کی یاد نے منصور کی سرد راتوں کو گرمائے رکھا۔ دسمبر جنوری کی دھند میں اگر کسی دن سورج کی چمک اس کے دنوں کو روشن کرتی تو شاید نسل کا تفاخر یا عمر کا تفاوت اسے ڈرانے لگتا۔ انم کی کوشش ہوتی کہ وہ اس کے قریب سے قریب تر رہے۔ راتوں کو منصور جلدی اپنے کمرے میں آ جاتا اور بار بار اٹھ کردروازے کی چٹخنی دیکھتا۔ اب وہ ساری ساری رات کمرے میں ویران بیٹھا رہتا۔ ایک رات اسے ہچکیوں کی آواز نے چونکا دیا۔

آواز انم کے کمرے سے آ رہی تھی۔ وہ بھاگا بھاگا ادھر گیا۔ دروازہ بند تھا۔ کھڑکی سے جھانکا تو وہ کمرے میں موجود صلیب اور یسوع مسیح کی شبیہ کے سامنے سر جھکائے رو رہی تھی۔ ”خداوند خدا، ا ے آسمانوں پر بسنے والے باپ، اپنے بیٹے کے صدقے میرے گناہ معاف کر۔ مجھے روح القدس کی برکت دے اور مقدس ماں کی پاکیزگی۔“

اگلے دن صبح وہ سفید کپڑے پہنے کھلے کالے سیاہ گیسو جن سے پانی موتیوں کی طرح ٹپک رہا تھا، کندھوں پر سجائے منصور شاہ کے سامنے کھڑی تھی۔ بے پناہ نسوانی حسن اور معصومیت کے نورانی امتزاج کی حامل انم کے چہرے پر کنواری ماں مریم مقدسہ کا نور چمکتا دکھائی دے رہا تھا لیکن برف جیسے سفید چہرے پر موجود کالی موٹی آنکھوں میں یاس ٹپک رہی تھی۔ اجالے پاکھ میں اس قدر افسردگی ہوگی، وہ دیکھ کر پریشان ہو گیا۔

وہ کمزور سی آواز میں بولی ”میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ شاہ صاحب، آپ مجھے اپنی کنیز بنا لیں۔“

یہ کہہ کر وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ گہری سیاہ آنکھوں پر دکھ بھری پلکیں سایہ فگن تھیں۔ آنکھوں سے ٹپکنے والے شبنم کے قطرے گالوں میں پھیلی ہوئی سرخی پر تیرتے ہوئے اس میں پڑنے والے چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں جذب ہو کر حسن کو دو چند کر رہے تھے۔

”شاہ جی، میرا خاندان نسل در نسل بھٹوں پر غلامی کی زندگی گزارتا رہا ہے۔ ہم نے صرف دکھ ہی دکھ دیکھے ہیں۔ آپ نے مجھے اس غلامی سے نجات دلائی۔ مجھے پڑھا کر انسانوں میں شامل کیا۔ اب مجھے اپنے گھر میں مستقل جگہ دے دیں۔ مجھے پتا ہے آپ بھی دکھی ہیں، خاموش خاموش رہتے ہیں۔ اپنی مشکلات اور غموں میں مجھے بھی ساجھے دار بنا لیں۔ میں آپ کی اور آپ کی بیٹی کی ساری عمر خدمت کرنا چاہتی ہوں۔“

اس دن کے بعد منصور شاہ نے خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیا۔ ایک سٹینڈ پر سفید کینوس لگا کر پہروں اس کے سامنے بیٹھا رہتا۔ کبھی کبھی مند آنکھیں کھول کر اس پر برش سے ایک لکیر لگاتا اور پھر بیٹھ جاتا۔ اس کی آنکھوں میں صرف اور صرف بھٹہ اور انم سمائی ہوئی تھی۔

کئی دنوں کے بعد کمرے سے باہر آیا اور گھر سے غائب ہو گیا۔ جب واپس آیا تو انم کو بلاکر کہنے لگا ”تم تیاری کر لو میں تمہاری شادی کرنا چاہتا ہوں۔“

”کس سے؟“
”اسی پادری لڑکے سے۔ وہ تمہیں بہت چاہتا ہے۔ میں آج ہی اس سے مل کر آیا ہوں۔“
”لیکن میں تو مسلمان ہو چکی ہوں۔“ اس نے اپنی آنکھیں منصور کے چہرے پر گڑوہ دیں۔

”نہیں، تم مسلمان نہیں۔ تمہارا دل کرسچن ہی ہے۔ میں نے تمہیں صلیب کے سامنے دوزانو روتے اور گناہوں کی معافی مانگتے دیکھا ہے۔ تم صرف میرے لئے مسلمان ہونا چاہتی ہو۔ کرن کی ماں کرسچن تھی اس لیے مجھے تمہارے مسلمان یا کرسچن ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں! اس کا تمہاری کمیونٹی اور رشتہ داروں کو بہت نقصان ہو گا۔“ یہ سن کر انم کے آنسو بہنے لگے۔ اس کی آنکھوں میں یک دم پوری مسیحی قوم پرابدالآباد سے چھائی بھٹوں میں دھونکے جانے والے کوئلے جیسی سیہ بختی امڈ آئی۔

منصور شاہ کچھ دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا ”تم میری فکر چھوڑو۔ میں کیوں خاموش رہتا ہوں۔ کیوں میرا دل ناشاد رہتا ہے۔ چھوڑو میری رام کہانی۔ یہ دکھ صرف میرا نہیں یہ سب کی جاگیر ہے۔ میں نے تمہیں اس لیے پڑھایا ہے کہ تم اپنے اور اپنی کمیونٹی کے مسائل حل کرو۔

جاؤ! وہ لڑکا بہت سمجھدار ہے اس کے ساتھ مل کر اپنا دکھ بھول کر جہاں کا غم اپنا لو اورمل کر سکھ کے سپنے دیکھو۔ اس جد و جہد میں تم مجھے اپنے ساتھ پاؤ گی۔ ”

شادی کے دن منصور شاہ نے ان کو ایک تصویرتحفہ میں دی۔

بھٹے کی چمنی پر ایک صلیب لٹک رہی تھی جس پر یسوع مسیح کو لٹکایا ہوا تھا۔ ورجن میری اپنی بہن کے ساتھ بھٹے کی دھواں اگلتی مٹی پر دو زانو مطمئن نظریں اٹھائے اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔ کنواری ماں کا پر نور چہرہ انم کی جھلک لیے ہوا تھا۔ ساتھ ہی فیض احمد فیض کی نظم لکھی ہوئی تھی۔
کیوں میرا دل شاد نہیں ہے
کیوں خاموش رہا کرتا ہوں
چھوڑو میری رام کہانی
میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں
میرا دل غمگین ہے تو کیا
غمگین یہ دنیا ہے ساری
یہ دکھ تیرا ہے نہ میرا
ہم سب کی جاگیر ہے پیاری
تو گر میری بھی ہو جائے
دنیا کے غم یونہی رہیں گے
پاپ کے پھندے ظلم کے بندھن
اپنے کہے سے کٹ نہ سکیں گے
غم ہر حالت میں مہلک ہے
اپنا ہو یا اور کسی کا
رونا دھونا جی کو جلانا
یوں بھی ہمارا یوں بھی ہمارا
کیوں نہ جہاں کا غم اپنا لیں
بعد میں سب تدبیریں سوچیں
بعد میں سکھ کے سپنے دیکھیں
سپنوں کی تعبیریں سوچیں
بے فکرے دھن دولت والے
یہ آخر کیوں خوش رہتے ہیں
ان کا سکھ آپس میں بانٹیں
یہ بھی آخر ہم جیسے ہیں
ہم نے مانا جنگ کڑی ہے
سر پھوٹیں گے خون بہے گا
خون میں غم بھی بہہ جائیں گے
ہم نہ رہیں غم بھی نہ رہے گا

سید محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ستیا پال آنند کی ایک اردو نظم