- Advertisement -

یادیں

ف ع کی ایک اردو تحریر

یادیں

السلام علیکم

بھئی کیا حال چال ہیں آپ سبکے ؟ ویسے اس کرونائی تماشے نے وگڑے تگڑے ٹھیک کر دئیے ہیں ۔آجکل ہم بہت sentimental ہوئے ہیں ۔ پہلے عموما مینٹل ہوتے ہیں آجکل انکی پھپھی زاد بہن سینٹی بھی حاضر ہیں ۔

آئیں آپکو اپنی داستان محبت سناوں ، کچھ دل کی کہوں ، کچھ اپنی چاہت کی سناوں ۔ میرا پیارا راج دلارا آلو گوشت !!!!!!

ہائیں آپ لوگ کیا سمجھ بیٹھے تھے ، بھئی دماغ کے خیالی گھوڑوں کی باگیں ذرا کھینچ کر رکھا کریں ۔ وقت ضائع کئیے بنا چلتے ہیں اس انمول داستان محبت کی طرف ۔

ہم بچپن سے ہی پکی ہوئی سبزی کھانے کے اتنے شوقین نہیں لیکن آلو گوشت وہ سالن ہوا کرتا تھا جسکی مہک سکول سے گھر آتے ہی بھوک چمکا دیا کرتی تھی ۔ بچپن میں آیا جی پلیٹ بنا کر دیا کرتیں ۔ تھوڑا سا شوربا ، دو آلو ، دو گوشت کے پیس ، آدھا چمچ مکھن اور تین چوتھائی روٹی ، سب کچھ مسل کر چور چور کر دیتیں ۔ اور ہم مزے لے لے کر کھاتے ۔

جب کچھ بڑے ہوئے ، ذرا عقل آئی تو شوربے میں خود روٹی ڈبو کر کھانے لگے ۔ ساتھ سلاد کھاتے تو اور زیادہ مزا آتا ۔

کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بچپن کے کچھ ذائقے آپکی زبان پر یوں اپنا عکس چھوڑ جاتے ہیں کہ آپ چاہے کچھ بھی کر لیں بڑھاپے تک آپکا pallete ویسے ہی سیٹ ہو جاتا ہے ۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی چکر تھا ۔ سسرال میں دعوتوں کا دور ختم ہوا ، ہماری ساس صاحبہ مرحومہ نے پوچھا کہ ، بچہ آلو گوشت پکوا لیں ۔ ہم نے پورے دانت باہر نکال کر کہا جی بالکل بنوا لیں ۔

بھانت بھانت کے چکنائی زدہ کھانے کھا کھا کر طبعیت آوازار تھی اور ہم بس دودھ ڈبل روٹی اور پھل پر زندہ تھے ۔ آلو گوشت کا نام سنتے ہی جان میں جان آئی ۔ پچھلے پہر ہم تین خواتین جن میں ہماری نانی ساس ، ساس اور ان دونوں کی بہو یعنی ہم شامل تھے ، چہل قدمی کیا کرتے ۔ آلو گوشت پک تو رہا تھا لیکن ہمیں میکے والی مہک محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔

ہماری نانی ساس ، جنکو سب اماں جی کہا کرتے ، وہ ہم سے ہمارے بچپن کے چھوٹے چھوٹے قصے سنا کرتیں ۔ انکے ابا اور میاں صاحب دونوں پولیس میں اعلی عہدے پر فائز رہ چکے تھے ۔ اور انھوں نے آدھے سے زیادہ پاکستان دیکھ رکھا تھا ۔ جب ہماری سن لیتیں تو اپنے بچپن یا جوانی کا کوئی قصہ سنایا کرتیں۔

وہ جانتیں تھیں کہ ہم کدو، ٹینڈے ، بھنڈی یا کریلے کوئی سبزی نہیں کھاتے ۔ کہنے لگیں بچہ مروت میں نا رہنا ، نہیں کھانا تو ابھی بتا دو ۔ ہم نے مزے لے لے کر انھیں بتایا کہ ہم اور آلو گوشت بچپن سے ہی بہت اچھے دوست ہیں ۔

سارا قصہ سننے کے بعد انھوں نے کہا کہ آج ہم سب ایسے ہی گوشت اور شوربے میں روٹی چور کر کھائیں گے ۔ جب کھانا لگ گیا تو ہم اپنی ایکسائٹمنٹ کو چھپاتے خوشی خوشی میز تک آئے ۔ آگے کیا دیکھتے ہیں بڑا سا ڈونگا کانوں تک لبا لب بوٹیوں سے بھرا ہے ، بوٹی اور آلو کا ریشو 10 اور ایک سے بھی کم ہے ۔ مٹیالی سی تری ہے ۔ بالکل gray سے رنگ کی اور اوپر تھوڑا سا دھنیا تیر رہا ہے ۔

ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ کیا یہ آلو گوشت ہے ؟ جواب آیا آہو وڈی پابی جی ۔ اب ہم کیا کرتے ، آلو گوشت کی اتنی توہین !!!!

لیکن ٹیبل مینرز کا تقاضہ تھا کہ چپ کر کے کچھ نا کچھ کھا لیا جائے ۔ پاس سے کسی نے کہا کہ ہمارے گھر تو آلو گوشت کسی کو بھی پسند نہیں یہ کیوں پکا ہے ؟ اماں جی کہنے لگے میری پتری کو پسند ہے ۔ ہم نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر آدھا چمچ شوربا نما مصالحہ نکالا ، آیک آلو کھینچ کھانچ کر چمچ پر چڑھایا( آلو اس قدر نرم ہو چکے تھے کہ چھونے پر برف کی طرح پگھل رہے تھے ) ۔ کسی نا کسی طرح آدھی روٹی کھا لی ۔ اماں جی کہنے لگے بچہ آج ہم تینوں ماں بیٹی نے روٹی چور کر کھانی تھی ، تو نے اکیلے ہی کھا لی ۔ ہم چپ کر گئے ۔

ہر گھر کا اپنا رواج ہوتا ہے ، سنا تھا کہ اماں جی خود سالن کی بہت اچھی طرح بھنائی کیا کرتے تھے، تب وہ خود کھانا کم ہی پکاتے لیکن انھیں کام سب کرنے آتے تھے ۔ ہم نے کریلے پہلی مرتبہ خوش ہو کر اپنی ساس صاحبہ کے ہاتھ کے پکے کھائے تھے ۔ وہ بھی ماشاءاللہ کھانا بہت عمدہ بنایا کرتیں تھیں ۔ کہتے ہیں کہ بیٹی کے ہاتھ میں ماں والا ذائقہ ہوتا ہے ۔

رات کے وقت جب اماں جی نے بہت زور دیا کہ کیا وجہ تھی جو آج بھی رج کے روٹی نہیں کھائی ۔ تب ہم نے انھیں بتا دیا کہ مزا نہیں آیا ، گوشت میں ہمک تھی ۔ شوربا نہیں تھا اور آلو بالکل گل چکے تھے ۔ ساتھ ہی ہم نے ڈرتے ڈرتے انکے منہ کی طرف دیکھا کہ کہیں برا نا منا جائیں ۔ لیکن جیسے ہی ہماری بات ختم ہوئی ایک زوردار قہقہے کی آواز آئی دونوں ماں بیٹی خوب ہنسیں ۔ ہمیں بھی ہنسی آگئی ۔ اپنی دوسری بہووں اور کھانا بنانے والی ملازمہ کی شان میں ایک قوالی گا کر کہنے لگیں
کچجیاں رناں، سالن نہیں بھوننا آتا اور پھر کہتی ہیں غذائیت مر جاندی اے ۔

ہم نے کہا کہ اماں جی بھلے بندہ مر جائے غذائیت نہیں مرنی چاہئیے ۔ پھر ہر روز پچھلے پہر اور رات کے کھانے کے بعد ہم تینوں ساس بہو ،چہل قدمی کرتے ہوئے باتیں کیا کرتیں اور خوب ہنسا کرتیں ۔

اماں اپنے ماموں کو ملنے لندن گئی ہوئیں تھیں ، پاوں میں موچ آگئی تو ایک ماہ کا stay دو ماہ تک چلا گیا ۔ ہم اداس تھے ۔ ایسے میں ہماری پھوپھی جان کے گھر سے بلاوا آیا کہ مل جاو ۔ اجازت لی ، اماں جی کہنے لگے وعدہ کرو دونوں ساس بہو شام تک آ جاو گی ، ہماری ساس صاحبہ مرحومہ کو کہنے لگیں ، جو وی ہو جائے کڑی نوں نال لے کے آنا ای ۔

یہ ان دونوں خواتین کا بڑا پن تھا کیونکہ کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر دونوں خاندانوں کے مرد تو get along کر لیتے لیکن خواتین کی آپس میں سلام دعا نہیں تھی ۔

خیر ہم اپنی پھوپھی صاحبہ مرحومہ کے گھر پہنچ گئے ، وہ 11 بھائیوں کی بہن تھیں ، سگی پھپھی کے گھر بیاہ ہوا ایک ماہ اپنے سسرال رہیں اور واپس آگئیں ۔ طلاق پر یہ قصہ ختم ہو گیا تھا ۔ انکے جیسا سلیقہ ہم نے کم ہی خواتین میں دیکھا ہے ۔

ہم نے ان سے فرمائش کی کے آپ جو بھی پکوا رہی ہیں وہ پکنے دیں لیکن ہمارے سامنے آلو گوشت خود بنائیں ۔ گرمیوں کے دن تھے ہمیں آج بھی یاد ہے ، وہ ہمیشہ ہلکی سی کلف والی سفید شلوار کے ساتھ چھوٹے پھولوں والی قمیض پہنا کرتیں ، ڈوپٹے کے کناروں پر کروشیا سے پھولوں والی بیل بنی ہوتی ۔ اور ڈوپٹہ یا تو سفید ہوتا یا پھر off white

پہلے تو چپ کر گئیں جب ہم نے بہت زور دیا تو اچھا کہہ کر کہنے لگیں شیدائیوں والے کام ۔
سلنڈر اور چولہا نکال کر باہر رکھا گیا ، مصالحے، باقی سامان ، انکا پیڑھا ۔ ہم پاس کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے ۔

پہلے انھوں نے گوشت میں پیاز لہسن ٹماٹر ڈالا ، پانی ڈالا ، نمک ہلدی ، اور چولہے پر چڑھا دیا ۔ ٹماٹر کے اوپر سے چھلکا اتار دیا گیا تھا ۔ پانی پر جو جھاگ آتی وہ ، وہ چمچ سے اتار کر پھینک دیتیں ۔ پھر انھوں گوشت تقریبا آدھا گلنے تک پکایا ۔ پھر گھی ڈال کر سرخ مرچ ، دیگی لال مرچ ، سوکھا دھنیا ، زیرہ ڈال کر خوب بھونا ۔ چھینٹا لگا لگا کر بھونتیں ۔ جب مصالحے سے گھی علیحدہ ہو گیا تو پھر دہی اور کٹا ہوا ادرک ڈالا ۔ دوبارہ بھنائی شروع ہوئی ۔ درمیانے آلو تھے ۔ ہر آلو کے چار چار ٹکڑے کئیے ۔ جب دہی اور مصالحہ بھن گیا تو آلو ڈال کر تھوڑا سا بھونا ۔

پھر پانی ڈال دیا ، پانی سالن سے بس ایک انچ اوپر تھا ۔ قصوری میتھی اور زعفران کو چھوٹی کونڈی میں پیس کر گوشت پر ڈال دیا گیا۔ زعفران اور قصوری میتھی ڈالنے کی دیر تھی کہ ہمیں وہ خوشبو آئی جو بچپن سے ہی آلو گوشت کے نام سے جڑی تھی ۔

چولہا ابھی تک تیز تھا ۔ ہلکے ابال آنے لگے ، پھر اسی چھوٹی کونڈی میں سبز الا ئچی، بڑی الائچی ، لونگ ، دارچینی اور کالی مرچ کو رگڑا لگا کر سالن پر ڈالا اور دم پر رکھ دیا ۔ 10 ، 15 منٹ بعد دیگچے کو تھوڑا سا کھولا اور سالن پر ہری مرچ اور ہرا دھنیا چھڑک کر پانچ ، سات منٹ اور دم لگا دیا ۔

ہم دیکھتے رہے ۔ پیٹ بھر کر کھانا کھایا ، شام کو واپسی ہوئی ۔ اگلے دن ناشتے کی میز پر وہی سالن اور پراٹھا ملا ۔ پتا چلا کہ واپسی پر جو سوغاتیں ساتھ آیی تھیں ان میں یہ سالن بھی تھا ۔

اماں جی نے چکھا تو ساتھ ہی کہنے لگے لے بھئی کڑی تے سچا روندی سی ۔ ہم شرمندہ ہو کر چپ کر گئے ۔

تین چار دن گزرے تو ہم نے اماں جی سے request کی کہ کھانا بنانے کی اجازت دیں ۔ اماں جی نے پہلے تو ہمیں کہا کہ توں رہن دے ، اینا نوں آپے بنان دے ۔ جب ہم نے ضد کی تو وہ مان گئے ۔ کچن میں گئے تو پتا چلا کہ گھر میں مغلوں کے زمانے کا زعفران رکھا ہے وہ بھی تب کام آتا ہے جب کوئی تعویذ لکھنا ہو ۔ گرم مصالحہ سال میں ایک مرتبہ ہی پیسا جاتا تھا اور اس میں سے ایسی مہک آرہی تھی جیسی پرانی لکڑی سے آتی ہے ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ گرم مصالحے کا استمعال ممنوعہ ہے اس سے ” سینے میں ساڑا پیتا ہے ” ۔

قصوری میتھی نہیں ڈالنی اس میں ” کرک ” ہوتی ہے ۔ ہم پھر اماں جی کے پاس آئے ۔ انکا ڈنڈا تب بھی ماشاءاللہ ہر قسم کے جانور پر چلتا تھا ۔ انھیں سارا قصہ سنایا ۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ لسٹ بنا کر دے دو چیزیں آ جائیں گی ۔ اور اماں ایمناں جو غذائیت سے بھرپور سالن بنانے کی ماہر اور کچن ہیڈ تھیں، انکو کہا کہ اپنا کام کریں ، کھانا بنائیں ۔ کڑی جو بناندی اے اونوں بنان دیو ۔

سامان آگیا ۔ ہم نے کھانا بنانا شروع کیا ، سگے سوتیلے رشتوں کے چکر میں صاحب کی کچھ بھتیجیاں ہم سے عمر میں بڑی تھیں ۔وہ عموما بات بھی اپنی مرضی سے کیا کرتیں لیکن اس دن کیا معجزہ ہوا کہ ہر کوئی ہر پانچ منٹ بعد باورچی خانے میں آ کر جھانک رہا ہے ۔

خیر سالن بن گیا ، نا پوچھیں سلنڈر پھٹنے سے لیکر کچے آلو سے موت واقع ہو جانے تک ہم نے کیا کیا سنا ، لیکن ہماری ساس صاحبہ سامنے میز کے پاس بیٹھیں رہیں ، اور ہمیں یہ بہت بعد میں پتا چلا کہ انکے وہاں بیٹھنے کے پیچھے کیا راز چھپا تھا ۔ کبھی پھر بتائیں گے آپکو آج نہیں ، خیر رات کے کھانے پر دوسرے سالن کے ساتھ آلو گوشت میز پر رکھا گیا ۔

کسی نے دیکھ کر کہا کہ یہ تو چالیسویں کی دیگ کا سالن ہے ، اماں جی کہنے لگے کہ آہو تیرا ای چالیسواں ہونا اے ، تینوں بوتا پتا اے ۔ سب چپ کر گئے ۔ آدمیوں نے جی بھر کے تعریف کی ۔ ہمارا واک مین خراب تھا ، اگلے دن اللہ جنت نصیب فرمائے، سسر صاحب نے گھر آتے ہی آواز دی اور کہا انعام لے لو ۔ نیا واک مین اور کچھ اور سامان تھا ۔

خواتین میں سے ایک نے اگلے دن کہا کہ گرم مصالحوں کی وجہ سے انھوں ساری رات ساڑا پڑتا رہا ہے ۔ انکے میاں فرمانے لگے کہ یہ ساڑا سالن کا تھا یا کسی اور بات کا ۔ کسی نے کہا کہ سادہ کھانا بنایا کرو ۔ ان مصالحوں سے رنگ سڑ جاتا ہے ۔ ان سب باتوں کا ایک ہی moral ہے
Try to stay away from family politics,
اچھا کریں اور اپنے کام سے کام رکھیں ۔ long run میں ایسی حرکتوں کا انجام سوائے ذلالت کے اور کچھ نہیں ۔ جس پتھر کو جتنی زیادہ ٹھوکریں لگی ہوتی ہیں وہ اتنا ہی گول اور خوبصورت ہوتا ہے ۔ دیکھنے والے کو وہ پتھر یاد رہتا ہے ، ٹھوکر مارنے والا کسی کو یاد نہیں ہوتا ۔

لیکن ہم تینوں ساس بہو اگلا پورا ہفتہ اس سالن اور اسکے after effects کو یاد کر کر خوب ہنستے رہے ۔ آج بھی آلو گوشت بناوں تو پھوپھی مرحومہ ، اماں جی اور ساس صاحبہ بہت یاد آتیں ہیں ۔

چند باتیں جو میں نے دیکھ کر سیکھیں ۔

گوشت کی بھنائی اتنی ہونی چاہئیے کہ گوشت کا اپنا پانی ایک مرتبہ تیل میں خشک ہو جائے ، ہمک تب ہی جاتی ہے ۔
ٹماٹر کا چھلکا شوربے والے سالن میں نا ڈالیں ۔
ہزار سال کا گرم مصالحہ اکھٹا پیس کر نا رکھیں ۔
کھڑی سبزی کے ٹکڑے ایک جتنے ہونے چاہئیں ۔
سالن کی تری کا رنگ خوشنما ہونا چاہئیے ۔
پیاز اور ٹماٹر کی ریشو کا دھیان رکھیں ، پیاز بہت زیادہ ہوا تو سالن میٹھا ہو جائے گا ، کم ہوا تو شوربا پتلا رہ جائے گا ۔

ف ع

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از حسن عباس رضا