تمہارے عشق کی لو میں دھمال ڈالوں گا
تمہیں خبر ہے کہ کتنی کمال ڈالوں گا
یہ جن و انس وملائک بھی سر کھجائیں گے
فلک کی گود میں ایسا سوال ڈالوں گا
ہمارے خون سے حق کی صدا ہی نکلے گی
قدیم یاد میں تازہ مثال ڈالوں گا
ہوائے شوق ہی منزل قریب لائے گی
سفر کروں گا غلاظت نکال ڈالوں گا
افق کے پار کی باتیں زمیں بتائے گی
جہانِ شعر میں قصرِ خیال ڈالوں گا
طلب کروں گا کہاں میں وفاوں کا بدلہ
فلک کی سمت میں نیکی اچھال ڈالوں گا
میں لفظ کن کی حقیقت سمجھ نہیں پایا
صنم کدے میں اذانِ بلال ڈالوں گا
ہر ایک سطر میں آئے گا انقلاب نیا
شکم کی آگ میں رزقِ حلال ڈالوں گا
زمین زاد بھی تڑپے گا ایک دن ماجد
ورق پہ حسن کا ایسا جلال ڈالوں گا
ماجد جہانگیر مرزا