صحافت اور خبر
ایک مزاحیہ تحریر از واجد علی گوہر
پاکستان کے موقر ترین، موثر ترین ، تیز ترین اور جدید ترین اخبار ” امروزِ فردا” میں آج لگی شہ سرخی ” آگئے۔ آگئے ۔ آگئے۔مدار المہام پلٹ کر واپس گھر کو آگئے” پر جب نظر پڑی تو دل نے بے اختیار چاہا کہ اس اہم خبر کے باقی مندرجات کو بھی غور سے پڑھا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ اس خبر کا ہمارے ہاں چھائے سیاسی جمود پر کیا اثر پڑے گا۔جب پوری خبر تفصیل سے پڑھی جو کہ اخبار کے پورے ایک صفحے پر محیط تھی تو اُس کے بعد علم ہوا ” امروزِ فردا کے مدار المہام اور پاکستان میں توانا صحافت کی تگڑی آواز جناب سیٹھ کاردراز صاحب ایبٹ آباد، گلیات اور حویلیاں کے صحت افزاء مقامات کی سیر کرنے اور ایک ہفتہ وہاں قیام فرمانے کے بعد واپس اپنے گھر کو لوٹ آئے ہیں "۔ اس کے بعد اخبار کا اداریہ پڑھا جس کے مطابق چونکہ سیٹھ صاحب ایک عرصے سے ملک کے دگر گوں حالات اور عوام کی حالتِ زار سے کبیدہ خاطر ہونے کی وجہ سے پریشان ہوکر خلوت نشینی کی زندگی گزار رہے تھے ، اُن کیلئے یہ دورہ نہ صرف طبی لحاظ سے ضروری تھا بلکہ خیبر پختونخواہ کے یہ علاقے بھی آپ کے وجودِ مسعود کی برکات سمیٹنے کیلئے صدیوں سے راہ دیکھ رہے تھے۔ آپ نے اس مختصر مگر انتہائی اہم دورے میں حویلیاں کے مرغ چنے ، گلیات کے انڈے اور ایبٹ آباد کی الیاسی مسجد کے پکوڑوں کا لطف اٹھانے کے علاوہ دیگر مشہور کھابوں سے بھی ذوقِ طعام کی حس جو عرصے سے پژمردگی کا شکار ہوکر سو رہی تھی اُسے جگایا تاکہ اُسے علم ہو کہ ” ذرا نم ہو تو بڑی زرخیز ہے یہ مٹی ساقی”۔ اداریہ لکھنے والے صحافی جناب منا شرارتی کے مطابق اس دورے کے دوران جو ملکی سیاست اور عوام کی ترجیحات کا تعین کرنے کے واسطے کیا گیا تھا اُس کے عالمی سیاست پر دوووووووور رس اثرات مرتب ہونگے اور فلسطین کو اسرائیل کی مخالفت سے باز آنا پڑے گا۔ سیٹھ صاحب نے اس کے علاوہ یہ دورہ کرکے اسلام آباد ، لاہور، سیالکوٹ، گجرانوالہ ، فیصل آباد اور کراچی کی تاجر برادری کے اس احساسِ محرومی کو ختم کیا جن کے مطابق پاکستان میں سیاحت کا مستقبل مخدوش ہے اور کوئی بھی اس المیے کا نوحہ لکھنے کو تیار نہیں۔آپ کا یہ دورہ جو عالمِ اسلام کے دل کی آواز تھا اس نے کفر کو ایوانوں میں لرزہ برپا کردیا ہے اور جی ایٹ کے سربراہان نے ہنگامی اجلاس بلا نے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ایک قوت بن کر اس عفریت کا مقابلہ کر سکیں۔خبر کے مطابق سیٹھ صاحب نے جن دیہات اور دور افتادہ مقامات کا دورہ کیا وہاں آپ نے ہر بیٹھک ہر کھوکھے ہر ڈھابے اور ہر حجرے پر کشمیر اور صرف کشمیر کے مسائل کا ذکر کیا اور عوام کو بتایا کہ گو کشمیر کا بھی حسن اپنی جگہ معنی خیز ہے مگر یہ علاقے دیکھ کر تو کشمیر کا حسن بھی منہ شرمائے اور دل لگانے کو یہاں آئے۔الغرض ادرایے کو پورا چاٹنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ اگر سیٹھ صاحب یہ دورہ نہ کرتے تو عالمِ کفر نہ تو اپنی ریشہ دوانیوں سے باز آتا اور نہ ہی عالمِ اسلام کے مجبور و مقہور اور آفت رسیدہ مسلمانوں کی ڈھارس بندھتی جو ایک مرتبہ پھر کسی صلاح ادین ایوبی کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ آپ نے یہ دورہ کرکے گویا واشنگٹن سے لیکر تل ابیب تک مسلمانوں کی یہ آواز پہنچا دی ہے کہ ” اِب کہ مار ” جس کے بعد نیو یارک سٹاک ایکسچینج کریش اور امریکی صدر طیش میں آکر اپنے ہی منہ پر چماٹ مار رہے ہیں۔
اس اداریے کے بعد اخبار کے صفحہ نمبر دوئم پر نظر دوڑائی تو صفحہ دوئم ، سوئم اور چہارم ملک بھر کی مقتدر شخصیات ، اداروں اور کمپنیوں کی طرف سے دیے گئے پیغاماتِ تہنیت سے بھرا پڑا تھا اور ہر کوئی فرہنگِ آصفیہ کے مشکل ترین الفاظ کا سہارا لیکر آپ کی خدمت میں قصیدے پیش کر رہا تھا۔ان قصائد میں سے کچھ قصیدوں کے مطابق آپ کی ذات ،”مرجع خلائق ، ظلم کے ضابطے ختم کرنے کی توانا ترین آواز، چراغ ِسحری، شکستہ دلوں کا سہارا ” وغیرہ وغیرہ ہے جو اگر یہ دورہ نہ کرتے تو شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم باب نامکمل رہ جاتا۔
اس شہ سرخی اور اداریے کو جسے جناب منا شرارتی صاحب نے لکھا اور اخبار ” امروزِ فردا” میں شائع ہوا اسے پڑھ کر میرا دل نہ صرف سیٹھ صاحب کے متعلق دل ہی دل میں بہت رویا بلکہ ذہن میں موجود اس غلط فہمی کا بھی خاتمہ ہوگیا کہ اب اس مٹی نے شاید نگینے جنم دینا بند کر دیے ہیں اور مکمل بانجھ ہوچکی ہے۔روزنامہ ” امروزِ فردا” دراصل سیٹھ صاحب کے عالی شان دماغ کی ہی عالی شان کارستانی تھی جو ملک میں صحافت کے زوال پر شدید تحفظات کا شکار تھے اور ہر محفل میں یہی بات کرتے نظر آتے تھے کہ ” صحافت اب خدمت کا نام نہیں رہا”۔ لیکن آپ نے پھر اس میدان میں قدم رکھا اور خدمت کے جذبے کے تحت اس اخبار کو لیکر چل رہے ہیں جو پہلے آٹھ صفحات پر مشتمل ہوتا تھا جسے ” عوامی مفاد” کی روشنی میں اور ” اشتہارات ” نہ ملنے کی وجہ سے چار صفحات پر محدود کردیا گیا ہے ۔اس اخبار میں پہلےصفحے پر جناب سیٹھ صاحب کے گزشتہ دن کے احوال شہ سرخی بن کر افق کی سرخی کو سرخی فراہم کرتے ہیں اور صفحہ دوئم پر ” کارِ دراز کی دراز ڈائری سے” کے عنوان سے اداریہ چھپتا ہےجس میں آپ کے پوشیدہ محاسن پر چالیس ہزار ووٹ کے بلب سے روشنی ڈال کر انہیں اجاگر کیا جاتا ہے ۔ صفحہ سوئم پر” آشنا کے ساتھ فرار، تلاشِ رشتہ، مجھے شوہر کہاں سے ملا، حسینہ کی حسین واردات، کولمبس اور افلاطون کے ایڈونچرز اور حکیم جان نثار کے طبی مشورے” جیسی اہم خبریں شامل ہوتی ہیں۔
صفحہ چہارم عوامی صفحہ ہے جس پر آپ پیسے دیجیے اور جو مرضی چھپوایئے والا کام کرسکتے ہیں اور یہی صفحہ دراصل اس اخبار کی جان ہے۔ آپ کو سوموار والے دن ” کونسلر حاجی خدمت خان نے محلہ بانڈی پورہ میں زلفی ہئیر ڈریسر شاپ کا افتتاح کرکے وہیں بیٹھے بیٹھے حجامت بھی بنوائی” جیسی انٹرنیشنل نیوز پڑھیں گے تو منگلوار آپ کو ” بانڈی پورہ کی ایکشن کمیٹی نے زلفی ہیئر ڈریسر شاپ کو مخرب اخلاق مجرے چلانے اور آوارہ گرد لڑکوں کی آماجگاہ بننے پر سیل کردیا” جیسی ایمان افروز داستان پڑھنے کو ملے گی جس کے بعد آپ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوجائیں گے کہ درست خبر کون سی تھی ۔اگرچہ کچھ سنجیدہ حلقوں نے کئی بار سیٹھ صاحب سے اس گورکھ دھندے کی وجہ جاننے کی کوشش کی مگر آپ سیٹھ صاحب ہر بار یہ کہہ کر جل دے دیتے ہیں ،” صاحبو! صحافت خدمت کا نام ہے اور میں خدمت کر رہا ہوں۔ اگر آپ کو تکلیف ہے تو ڈاکٹر کو بتائیے تاکہ آپ کا علاج ہوسکے”۔
واجد علی گوہر







